خالصتان تحریک کا نیا جنم

Khalistan Movement

Khalistan Movement

تحریر: حنظلہ عماد
خطہ ہندوستان زمانہ قدیم سے ہی منقسم ریاستوں اور جاگیروں پر مشتمل تھا۔ اس کی و حدانیت کا کوئی تصور مسلمان فاتحین سے قبل موجود نہ تھا۔ راجہ اشوک وغیرہ نے بھی اگر حکومت کی تو صرف اس قدر خطے پرکہ جہاں تک وہ زور چلا سکے۔ پورے ہندوستان کو ایک اکائی وہ بھی نہ بنا سکے۔ یہ مسلمان حکمران ہی تھے کہ جنہوں نے اس پورے خطے کو متحد ہ ہندوستان کی شکل دی اور ایک اکائی بنا دیا۔ ہندو قوم اور ذات میں یہ خصوصیت نہ تھی کہ یہ اسے ایک متحدہ ملک بنا سکتے۔

چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ ہندو راجے اور مہاراجے آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے یہاں تک کہ مسلمانوں نے ان سب کو اپنا باجگزار بنالیااور یوں متحدہ ہندوستان وجودمیں آیا۔مسلمانوں کی حکومت میں جب اس خطے سے ختم ہوئی توانگریز کی سازشیں اوراپنوں کی غداریاں اس کا سبب تھیں لیکن انگریز بھی اس پورے خطے پراپنی حکومت قائم نہ رکھ سکا۔بلکہ اسے بھی وقتاً فوقتاً مختلف بغاوتوں کا سامنا رہا اور ایسے بہت سے علاقے ہندوستان میں موجود رہے کہ جہاں انگریز سرکار کاسکہ اورحکم نہ چلتاتھا۔ چنانچہ انگریز نے جب یہاں سے رخت سفر باندھا تو اسے ہندوستان کو تقسیم کرنے میں ہی عافیت نظرآئی۔ کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہندو بہترین رعایا،چاپلوس غلام اور ظالم ترین حاکم ہیں۔

چنانچہ اس وقت بھی تقسیم ہند میں جوحصہ مسلمانوں کے پاس آیا وہ خطہ آج بھی معمہ ہے اور یہاں کوئی قابل ذکر علیحدگی کی تحریک نہیں ہے۔ ماسوائے دشمن کی زبان بولنے والے چندگروہوں کے اوراس وقت وہ بھی دم توڑ رہے ہیں۔جبکہ ہندوستان جو بھارت کہلاتاہے ،اس میں ہندؤوں کے روایتی تعصب کابھرپور مظاہرہ ہوا۔چنانچہ جلد ہی وہاں بہت سی قوموں اور گروہوں نے آزادی کا مطالبہ شروع کردیا۔
آزادی کامطالبہ کرنے والے گروہوں میں قابل ذکر نکسل باڑی، ماؤنواز،سکھ برادری اور دیگر کئی گروہ شامل ہیں۔ان گروہوں کی جانب سے آزادی کے مطالبے کا واحدمحرک ہندوتعصب اورتنگ نظری تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارت میں 18سے زائد مسلح تحریکیں چل رہی ہیں جو اپنے خطوں کی آزادی اور علیحدگی کامطالبہ کرتی ہیں۔ان تحریکوں میں حالیہ تیزی آئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ نریندرمودی کاوزیراعظم بننا ہے کہ جو ایک متعصب ہندولیڈرہیں اور آرایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں۔ان کے اقتدار میں آتے ہی بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کوتقویت ملی ہے۔ اس کاحالیہ ثبوت بھارت کی منی پور ریاست میں علیحدگی پسندوں کابھارتی فوج پرتازہ حملہ ہے جس میں 20کے قریب بھارتی فوجی مردار ہوئے تھے۔ایسے حملے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔

 Sikhs Really

Sikhs Really

ایک بات واضح ہے کہ اسی حملے کے جواب میں بھارت کی جانب سے برماکے اندر فوجی کارروائی کرنے کا دعویٰ کیاگیااور پاکستان کو دھمکیاں بھی لگائی گئیں۔ البتہ یہ دعویٰ بعدمیں جھوٹا ثابت ہوااور بھارت کی پوری دنیامیں سبکی ہوئی۔نریندرمودی کے اقتدارمیں آنے کے باعث جہاں دیگر تحریکوں کوتقویت ملی وہاں سکھوں کی دیرینہ تحریک نے بھی نئی انگڑائی لی ہے۔ 80ء کی دہائی میں سکھوں نے زوروشور سے تحریک برپاکی تھی کہ انہیں ایک علیحدہ ملک دیاجائے جس کانام خالصتان ہو۔تحریک بہت زور سے جاری تھی کہ بھارت نے انتہائی بے رحمانہ اندازمیں اس تحریک کو کچل دیااور اس مقصد کے لیے بھارت نے سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پرفوجی کارروائی سے بھی گریز نہ کیا۔ چنانچہ 1984ء میں آپریشن بلیوسٹارلانچ کیاگیا جس کے تحت گولڈن ٹیمپل پرحملہ کیاگیا اورہزاروں سکھوں کا قتل عام کیاگیا۔اس دن سکھ مت کے پانچویں گروکاجنم دن تھا اوراس کی تقریبات جاری تھیں ۔چنانچہ گولڈن ٹیمپل میں بہت رش تھا۔بھارتی فوج نے گولڈن ٹیمپل پرحملہ کیااورسکھوں کاقتل عام کیاجس میں سکھوں کے رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کوبھی قتل کر دیا گیا۔

یوں اس تحریک کوبظاہربے رحمی سے کچل دیاگیا لیکن تحریکیں جوخاص نظریے کے تحت چلاکرتی ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں بلکہ کچھ وقت کے لیے دب جاتی ہیں۔ چنانچہ اس تحریک نے بھی محض 2سال بعد یہ ثابت کیاکہ سکھ بھارت سے ناراض ہیں۔اس بات کااثبات یوں ہوا کہ دوسکھوں نے بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کوقتل کردیا اور یوں دنیا کو پیغام دیا کہ خالصتان تحریک ابھی بھی زندہ ہے۔

موجودہ نسل میں پھریہ تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ اس وقت سکھ نوجوان نسل کے لیے خالصتان تحریک کے روح رواں اور آپریشن بلیوسٹار میں مرنے والے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اس وقت ہیروکی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ بھارتی فوج کے جرنیل سجن کمار سے شدید نفرت کی جاتی ہے۔سجن کمار کوسکھوں کے قتل عام پرگرفتارکیاگیاتھا لیکن انہیں بھی بھارتی عدالت نے رہاکردیاتھا۔اس پر بھی سکھوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے اور اس نے بھی خالصتان تحریک کو تقویت بخشی ہے۔

سکھ نوجوانوں نے آپریشن بلیوسٹار پرفلمیں اور ڈاکومینٹریز بنائی ہیں کہ جن میں 1984ء میں سکھوں پر ہونے والے مظالم کودکھایاگیاہے۔سکھ کمیونٹی ہرسال واقعہ کی یاد میں دنیابھرمیں اجتماعات منعقد کرتی ہے اور ان اجتماعات میں خالصتان کے مقصدکااعادہ کیاجاتاہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سکھ کمیونٹی جہاں بھی جمع ہوتی ہے وہاں خالصتان کے حصول کااعادہ بھی کیاجاتاہے اور اس کے لیے سکھوں میں آگاہی پھیلائی جاتی ہے۔باباگرونانک کے جنم دن کی تقریبات میں بھی سکھ رہنمائوں کی طرف سے یہ اعلان کیاگیاکہ بھارت خالصتان کاحق سکھوں کو دے اور سکھ کمیونٹی پراپنے مظالم بند کرے۔

حالیہ دنوں میں ہی امرتسر میں واقع سکھوں کے مذہبی مرکز گولڈن ٹیمپل میں خالصتان زندہ باد کے نعرے بلند کیے گئے۔سکھوں کی علامت چمکتی تلواریں بھی لہرائی گئیں۔بھارتی پولیس نے اس مظاہرے پر ہلہ بول دیا اور 25مظاہرین کو گرفتارکرلیا۔اس موقع پر ہی 1984ء کے ہیرو جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے اہل خانہ کو ایوارڈ سے بھی نوازاگیا ۔یوں خالصتان تحریک کو ایک طرح سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جموں میں حالیہ فسادات بھی سکھوں کی بھارت دشمنی کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔ رواں ماہ جب سکھوں نے اپنے ہیرو جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے پوسٹرجموں میں آویزاں کیے تو پولیس نے یہ سارے پوسٹر اتار دیے۔ سکھ نوجوان اس پرمشتعل ہوگئے اورانہوں نے مظاہرے کیے اورجموں سرینگرہائی وے بلاک کر دی۔

Protest in Kashmir

Protest in Kashmir

پولیس نے مظاہرین پرتشدد کیاجس سے ایک سکھ نوجوان ہلاک ہوگیا۔ اس سے اشتعال میں اضافہ ہوا اور فسادات پھیل گئے۔ سکھ نوجوان جموں میں بھارت سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے پاکستان کا جھنڈا بھی جموں میں لہرادیا۔ اس سے قبل کشمیر کے علاقوں میں مسلمان رہنماؤں کی طرف سے پاکستان کاجھنڈا لہرایاجاچکاہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے لیکن سکھ نوجوان نسل کی جانب سے پاکستانی پرچم کا لہرایا جانا نہ صرف سکھ نوجوان نسل کی بھارت سے نفرت کااظہارہے بلکہ ان کا پاکستان سے محبت کااظہار بھی ہے۔
انہی دنوں میں سکھوں نے پوری دنیامیں مظاہرے کیے ہیں کہ سکھوں کوان کے حقوق دیے جائیں اور خالصتان بنایاجائے۔ یہاں تک کہ پیرس ،فرانس میں سکھ کمیونٹی نے یہاں تک نعرے بلند کیے کہ ”کشمیر پاکستان کا… خالصہ خالصتان کا۔”بھارتی حکومت کے لیے یہ تمام واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ نریندرمودی کو چاہیے کہ وہ اس وقت اپنے ملک کی طرف توجہ دیں اور جن ریاستوںکو استحصال کے ذریعے دبا کر رکھاہے انہیں آزادی دیں ۔تاکہ وہ بھی سکھ کاسانس لے سکیں…بصورت دیگر یہ بھارت کے گلے کا کانٹا بھی بن سکتی ہیں۔

تحریر: حنظلہ عماد
lmdeptt.ams@gmail.com