اغواء برائے تاوان

kidnapped

kidnapped

تحریر: ایم سرور صدیقی
اس کا شمار شہر کے امیر لوگوں میں ہوتا تھانیک نیت، خوف ِ خدا رکھنے والا یہ شخص اس وقت بہت پریشان لگ رہا تھا۔۔ وہ موسم خنک ہونے کے باوجود بار بار اپنی پیشانی سے بہتا پسینہ پونجھ رہا تھا سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے۔۔۔ اس کا جوان بیٹا کل سے غائب تھا تلاش کرتے کرتے برا حال ہو گیا۔ پہلے سوچا کہ بیٹا جوان جہان ہے کسی دوست کی طرف نکل گیا ہو گا۔۔۔کوئی ذاتی کام بھی ہو سکتا ہے بیٹے کے متعدد دوستوں، کاروباری تعلق داروں اور مختلف ہسپتالوں سے بھی معلوم کیا لیکن کوئی پتہ نہ چل سکا گھریلو پریشانی سے بچنے کیلئے اس نے اپنی اہلیہ اور دیگر فیملی سے جھوٹ بول دیا کہ سکندر کو میں نے کراچی کام بھیجاہے ایک دو روز میں آ جائے گا۔۔۔اب اس کا دل ڈوبا جا رہا تھا اندیشے سر اٹھانے لگے ذہن ودل میں طرح طرح کے خیالات گردش کرنے لگے اچانک موبائل کی ٹون بجنے لگی اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی ان ہونی ہونے لگی ہے اس نے جلدی سے موبائل اٹھاکر کان سے لگایا کسی نے کہا تمہارے بیٹے کو اغواء کر لیا گیا ہے۔

تاوان کا انتظام۔۔۔ اس نے ”ہیں” کہا اوروہیں گرگیااہلیہ جو دروازے کی اوٹ میں بڑی دیر سے کھڑی اپنے میاں کی حرکات و سکنات دیکھ رہی تھی جلدی سے آگے بڑی ۔۔موبائل پکڑکر کال سننے لگی ۔۔کوئی کرخت لہجے میں کہہ رہاتھا سکندرکی سلامتی چاہتے ہوتوپرسوںتک2کروڑ کاانتظام کرلوورنہ تم جانتے ہی ہوکیا ہو سکتاہے کسی کو بتایا تو فیس دگنی ہوجائے گی۔ شہر کے مرکزی بازارمیں حاجی معراج دین کی کپڑے کی دکان سب سے بڑی تھی۔۔مالدارہونے کے باوجود بلا کا کنجوس۔۔زمانہ شناس ہونے کے ناطے کپڑوںکی نت نئی وڑائٹی وسیع رینج کے ساتھ بیشترکی پسندکے کپڑے اس کے کلاتھ ہائوس سے مل جایاکرتے تھے یہی وجہ تھی حاجی معراج دین کی دکان پر ہمیشہ خواتین اور نوجوانوںکا رش لگا رہتا تھا لوگوںکی نفسیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی دکان نوٹ جھاپنے کی مشین بن گئی تھی۔

صبح اس نے اپنی زیر ِ نگرنی ملازموں سے دکان کھلوائی اور اپنی مخصوص جگہ جا بیٹھا حاجی معراج دین نے کچھ دیر قرآن حکیم کی تلاوت کی پھر اخبار پڑھنے میں مشغول ہوگیا ملازمین جھاڑ پونجھ کرنے لگے یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا۔۔۔وہ انہماک سے اخبار پڑھ رہا تھا کہ ایک ملازم نے ایک چھوٹا سا لفافہ اسے تھمادیا۔۔۔ابے یہ کیاہے؟ اس نے اپنے مخصوص اندازمیں پوچھا۔۔۔حاجی صاحب!ملازم کہنے لگا میں صفائی کررہاتھا کہ مجھے یہ لفافہ شٹرکے ساتھ بندھا ہوا ملا ہے۔۔۔اچھا اچھاحاجی معراج دین نے کہا جائو اپنا کام کرو وہ پھر اخبارکا مطالعہ کرنے لگامعمولات کے بعد اسے لفافے کا خیال آیا اندرسے ایک چھوٹاسا کاغذ برآمدہوا اسے پڑھاتویوں لگاجیسے اس کے قریب کوئی بم پھٹ گیاہو”کل شام تک3کروڑ ورنہ تم یا تمہارے بیٹے کو اندھی گولی چاٹ جائے گی یا تمہاری بیٹی اغوا ء ہو جائے گی کسی کوبتانا چاہوتو شوق سے۔۔۔ ایسے واقعات روزانہ ہمارے اردگرد رونما ہورہے ہیں۔۔

Kidnapping for Ransom

Kidnapping for Ransom

کہنے کو تویہ علامتی کہانیاں ہیں لیکن حقیقی زندگی کے جیتے جاگتے کردار ہم میں ہی موجود ہیںملک میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے کراچی ،پشاورکے بعد پنجاب کے بڑے شہر بھی اس کی زدمیں ہیں کہا جارہاہے کہ اغواء برائے تاوان نے باقاعدہ دھندے کی شکل اختیارکرلی ہے اب تلک مالدار لوگوںکے ساتھ ساتھ کئی وزیر، مشیر بھی اغواء ہوچکے ہیں جنہیں بھاری تاوان دے کر بازیاب کروایا گیا گذشتہ سال لاہور،کراچی،ملتان،اسلام آباد ،گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی 16بڑی کاروباری شخصیات کو کروڑوں تاوان دیکر رہا کروانے کی اطلاعات ہیں ان کے لواحقین نے FIRتک درج نہیں کروائی اور حکومت بھی ان کیلئے کچھ نہیں کرسکی ۔حالات وواقعات یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اغواء برائے تاوان ایک منظم کاروباربن چکاہے۔۔۔اس سلسلے کو 5مراحل میں پایہ ٔ تکمیل تک پہچایا جاتاہے اغواء کیلئے مخبری۔کڈنیپنگ،محفوظ جگہ تک رسائی،قانون نافذ کرنے والے اداروںسے بچائو اور تاوان وصول کرنا ان سب کاموں کیلئے بڑے سائیٹیفک طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔

کسی بھی شخص کو صرف اغواء کرکے2سے4لاکھ کے عوض اگلی پارٹی کو منتقل کردیا جاتاہے شنیدہے اس وقت مختلف شہروںمیں20سے زائد اغواکارگروہ موجود ہیں کئی یرغمالیوں کی باقاعدہ نیلامی بھی کی جاتی ہے یہ بھی سننے میں آرہاہے کہ اغواء کار جدید اسلحہ اوربہترٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں انکے پاس آمدو رفت کیلئے بہترین وسائل ہیں ا نفارمیشن کا یہ حال ۔۔کہ مغوی کا خاندان اگر سیکورٹی داروںسے رابطہ بھی کرلے انہیں لمحہ بہ لمحہ کی خبر ہوتی رہتی ہے یہ بات اس لئے یقینی طورپر کہی جا سکتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروںکے بعض اہلکار ان کیلئے کام کرتے ہیں۔جن اغواء کاروں کی مغوی کے گھر والوںسے ڈیل کامیاب نہیں ہوتی وہ ”پرندے” طالبان یا اس سے ملتی جلتی تنظیموں کو فروخت کردیتے ہیں۔عوام میں خوف وہراس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اغواء کار مطلوبہ رقم وصول کرنے کے بعد بھی مغوی کو رہا نہیں کرتے۔

Suspected Kidnappers

Suspected Kidnappers

بعض سنگدل رقم بھی لے لیتے ہیں اور مغوی کو قتل بھی کردیتے ہیں حکومت ابھی تک ان کا نیٹ ورک توڑنے میں کامیاب نہیںہوسکی جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے حوصلے مزید بڑھتے چلے جارہے ہیں ان لوگوں کا شاید خیال ہو اغواء برائے تاوان پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ حالات بتاتے ہیں پاکستان میں پچھلے دو عشروں کے دورن امن وامان کی صورتِ حال دن بہ دن مخدوش ہوتی چلی گئی ہے جب سے9/11کا واقعہ ہواہے طالبائزیشن کی آڑمیں پاکستان ٹارگٹ بن گیاہے ایک طرف چوروں، ڈکیتوں،راہزنوں اور دیگر جرائم پیشہ افرادنے عوام کا جینا عذاب بنا رکھاہے پھردہشت گردی کیا کم تھی کہ اغواء برائے تاوان کے واقعات نے پورے ملک میں خوف وہراس پھیلارکھاہے ایک آزاد ملک کے باسی اپنے ہی ملک، اپنے شہر اور اپنے ہی گھروں میں سہمے سہمے ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔

ملک گروہی، لسانی، فرقہ واریت اوربرادری میں تقسیم اورطبقات میں بٹاہواہے۔ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ڈاکہ زنی کی وارداتوں سے یوںتو کوئی بھی محفوظ نہیں لیکن ان حالات نے کاروباری طبقہ کو خاص طورپر متاثر کیاہے جس کی وجہ سے بے چینی،مہنگائی اور بیروزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اس ملک میں باوسائل لوگ ہی محفوظ نہیں تو پھر عام آدمی کے تحفظ کیا ضمانت دی جا سکتی ہے امن و امان کے تحفظ اور ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ڈاکہ زنی جیسے گھنائونے کام کی روک تھام کیلئے حکومت کیلئے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے اب تو چھوٹے موٹے جرائم پیشہ افرادنے بھی ان مخصوص حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گروپ بنالئے ہیں موجودہ حالات اورجرائم پیشہ افرادکے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی حکمت ِ عملی تیارکی جائے سماج دشمن عناصر کا نیٹ ورک توڑنے اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ناگزیزہے یہ لوگ سیاست، مذہب، کاروباراور معاشرے کے ہر طبقہ میں موجود ہیں۔

سچائی یہ ہے کہ ان وارداتوں میں جو بھی ملوث ہو اس پر کسی قسم کا رحم کھانا معاشرے کے قتل کے مترادف ہے ۔۔۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بے رحم اپریشن کے بغیر کبھی نتائج مثبت نہیں آسکتے سامنے کی بات ہے جب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت کمزورہوتی ہے یا وہ دوسرے کاموں میں الجھ جاتے ہیں جرائم پیشہ افراد کو گل کھلانے کا موقعہ مل جاتاہے اس لئے قانون کو ہر دم چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپریشن ضرب ِ عضب نے بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ڈاکوئوںکی کمر توڑڈالی ہے لیکن ان کے سہولت کاروں،سرپرستوں اور ہر قسم کے معاونین کے گرد بھی شکنجہ کس دیا جائے چھوٹو گینگ نے بھی اپنے سہولت کاروںکا انکشاف کردیا ہے ملک کے طول و عرض میں نہ جانے کتنے چھوٹے گینگ اور ان کے سہولت کار دنداتے پھرتے ہیں ان کے خلاف بھی سخت ایکشن لینے کی اشد ضرورت ہے یہی حالات کا تقاضاہے اور روشن مستقبل کی ضمانت بھی۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی