قاتل آقا اور مقتول غلام

Embassy Vehicle

Embassy Vehicle

تحریر : عقیل خان
ہفتہ کی شام وفاقی دارالحکومت میں چڑیا گھر کے قریب مارگلہ روڈ پر امریکی سفارتخانے کی ایک گاڑی کی ٹکر سے موٹرسائیکل پر سوار ایک نوجوان ہلاک جب کہ دوسرا زخمی ہو گیا تھا۔پولیس کے مطابق یہ گاڑی امریکی سفارتخانے میں تعینات ڈیفنس اینڈ ایئر اتاشی کرنل جوزف چلا رہے تھے جنہوں نے ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری۔سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کی وجہ سے کرنل جوزف کو تو تحویل میں نہیں لیا گیا لیکن ان کی گاڑی پولیس نے قبضے میں لے کر واقعات کی رپورٹ درج کر لی۔ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی ویڈیو میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ریڈ سگنل آن ہے مگر پھر بھی امریکی سفارتکار کی گاڑی پاکستان کے ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاکرا یک معصوم شہری کی جان لے گیا۔ امریکہ کی دہشت گردی سب کے سامنے ہے۔ حال ہی میں افغانستان میں مدرسے پربمباری کرکے جو کچھ کیا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔افسوس تو یہ ہے کہ سو سے زائد بچوں کی شہادت پر پاکستانی سیاسی قیادت خاموش رہی۔

پاکستان نے امریکی سفارتکار کی گاڑی کی ٹکر سے اپنے شہری کی ہلاکت پر امریکہ سے احتجاج کیا ہے۔اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو اتوار کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا جہاں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے اپنے ملک کی طرف سے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ سیکرٹری خارجہ نے امریکی سفیر کو آگاہ کیا کہ اس معاملے میں ملکی قوانین اور سفارتی تعلقات کے لیے وضع کردہ ویانا کنونشن کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔بیان کے مطابق سفیر ڈیوڈ ہیل نے جانی نقصان پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سفارتخانہ تحقیقات میں مکمل تعاون کرے گا۔

حالیہ برسوں کے دوران وفاقی دارالحکومت میں امریکی سفارتخانے کی گاڑیوں سے پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔2010ء میں سیونتھ ایونیو پر سفارتخانے کی ایک گاڑی کی ٹکر سے موٹرسائیکل پر سوار ایک نوجوان ہلاک ہو گیا تھا جب کہ 2013 میں مارگلہ روڈ پر ایسے ہی ایک واقعے میں ایک شخص ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سارے قوانین کیا صرف پاکستانیوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ ہمارے عام آدمی سے لیکر سیاستدان تک کی جو درگت ائیرپورٹ پر بنائی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہمارے سیاسی حکمران جب امریکہ یاترا پر جاتے ہیں تو ان کے ساتھ جو نارواسلوک کیا جاتا ہے اس کو پاکستانی میڈیا ہی نہیں دوسرے میڈیا کے لوگ بھی نمایاں کوریج دیکر پاکستانیوں کی خوب عزت افزائی کرتے ہیں۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی رہنما ہوگا جس کو امریکی ائیر پورٹ پر ذلت کا سامنا اٹھانا نہ پڑا ہو ۔ ابھی حال ہی میںسننے میں آیا کہ ہمارے ملک کے وزیرا عظم امریکہ گئے تو ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ کچھ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اب یہ اللہ جانتا ہے کہ وہ حقیقت (Orignal) پر مبنی ہیں یا فیک(Fake)ْ۔ ہمارے لوگوں کے ساتھ امریکہ کا یہ حسن سلوک ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں امریکی کچھ بھی کرلیں وہ آزاد ہیں۔ بندہ مار کر بھی وہ اپنے ملک باعزت طریقے سے چلے جاتے ہیں۔

کیا پاکستان اور امریکہ کے قوانین میں اتنا تضاد ہے کہ ہمارے رہنما ؤں کی تذلیل کی جائے اور ان کا ایک عام سا بندہ بھی مجرم بن کر محرم بنا رہے۔اس سے پہلے جو واقعات ہوچکے ہیں کیا ان میں سے کسی ایک پر امریکیوں کو سزا ملی ؟ کہیں ایساتو نہیں کہ ایک بار پھر ریمنڈ ڈیوس کی یاد تازہ کی جارہی ہے۔ غریب کا بچہ جان سے گیا اورپیسے والے چار پیسے دیکر معاملے کو رفع دفع کردیں۔ اگر اب بھی ریمنڈ ڈیوس کی یاد تازہ کی گئی تو پھر یاد رکھیں پاکستانی کبھی امریکہ میں آنکھ اٹھا کر نہیں جی سکتا۔ چیف جسٹس صاحب جو آجکل کافی از خود نوٹس لے رہے ہیں ان کو اس معاملے کا بھی از خود نوٹس لے لینا چاہیے تاکہ امریکہ کو بھی معلوم ہوسکے کہ پاکستان میں بھی قوانین ہیں، ان کو بھی پوچھنے والا موجود ہے۔اگر اب بھی دیت کا نا م لیکر پیسوں میں بکنا منظورہے تو پھر پاکستان میں ایسے بہت سے پیسے والے بیٹھے ہیں جودیت کے نا م پر قانون کو اپنے گھر کی باندی بنا لیں گے۔

ہمیں اپنے سبز ہلالی پرچم کوسرخرو رکھنا ہے تو اپنے قوانین کاہمیں خود بھی اور دوسروں کو بھی اس کا احترام کرواناہوگا۔ اگر پیسے کی خاطر ہم اپنے قانون کو فروخت کریں گے تو پھر ہم ایک با وقار قوم نہیں بن سکتے ۔ دیت دینے کی اگر اسلام میں اجازت ہے تو پھر ہمیں یہ قوانین صرف امریکیوں کے لیے ہی نہیں رکھنا چاہیے اس سے ہر پاکستانی کو مستفید ہونے کی اجازت ہو۔شاعر کا یہ کلام شاید کشمیر نہیں پاکستان پر فٹ آتا ہے کہ:
قوم فروختند چہ ارزاں فروختند

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com