قانون کے محافظ

King

King

تحریر: شیخ توصیف حسین
کرے داڑھی والا اور پکڑا جائے مونچھوں والا واہ رے میرے ملک کے قانون کے محافظوں تمھارے انداز نرالے ایک کہاوت ہے کہ ایک بادشاہ شکار کھیلنے کیلئے جنگل میں پہنچا تو اسے وہاں ایک ہرن دکھائی دیا جس کو شکار کرنے کیلئے بادشاہ نے اپنا گھوڑا ہرن کے پیچھے دوڑانا شروع کر دیا ہرن اپنی جان بچانے کیلئے تیز رفتاری سے دوڑتا ہوا جنگل کے وسط میں پہنچ کر غائب ہو گیا بادشاہ ہرن کو غائب ہوتا ہوا دیکھ کر واپس جانے لگا تو اسی دوران بادشاہ اپنا واپسی کا راستہ بھول گیا کچھ دیر تک بادشاہ اِدھر اُدھر واپس جانے کیلئے اپنا گھوڑا دوڑا تا رہا لیکن واپسی کا راستہ اسے کہیں نظر نہ آ یا جبکہ اسی دوران اسے سخت پیاس محسوس ہوئی لیکن وہاں پر پانی نہ ہونے کے سبب بادشاہ اپنی پیاس کی تاب نہ لاتے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ پر ہی بے ہوش ہو گیا جبکہ گھوڑا بادشاہ کو اپنی پیٹھ پر لادے ایک سمت کو دوڑتا رہا بالآ خر گھوڑا ایک ایسی جگہ پر جا کر رک گیا جہاں پر ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا چرواہے نے جب بادشاہ کو گھوڑے کی پیٹھ پر بے ہوشی کے عالم میں دیکھا تو چرواہے نے بادشاہ کو گھوڑے کی پیٹھ پر سے اتارا اور ایک بکری کو پکڑ کر اس کا دودھ بادشاہ کے منہ میں ڈالنے لگا۔

جس پر بادشاہ کو ہوش آ گیا ہوش میں آتے ہی بادشاہ نے خوشی کے عالم میں چرواہے کو اپنی سلطنت کا نصف حصہ بخش دیا چرواہے نے بخشش کی گئی سلطنت کے حصہ پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کیلئے اپنے ہم خیال ساتھیوں کی کا بینہ جبکہ اس کی حفاظت کیلئے پولیس کی بھاری نفری کو بھرتی کر لیا ایک دن چرواہا بادشاہ اپنی سلطنت کے دربار میں بیٹھا تھا کہ اسی دوران چند ایک پولیس کے اہلکار ایک ایسے شخص کو پکڑ کر لے آئے جو کہ بکری چور کا دور کا رشتہ دار تھا چرواہے بادشاہ نے اپنی سوچ کے مطابق اس شخص کو جو بکری چور کا دور کا رشتہ دار تھا سزائے موت کا حکم دے دیا پولیس اہلکار یہ حکم سنتے ہی۔

Hanging

Hanging

اس شخص کو جلاد کے پاس لے گئے جلاد نے اس شخص کو متعدد بار پھانسی دینے کی کوشش کی لیکن پھانسی کا پھندا کم ہونے کے باعث اس شخص کو پھانسی دینے میں قاصر رہا بالآخر جلاد نے یہ کہتے ہوئے اس شخص کو پھانسی دینے سے انکار کر دیا کہ اس شخص کے گلے میں پھانسی کا پھندا کم رہا ہے اس لیئے اس کو پھانسی نہیں دی جا سکتی چرواہے بادشاہ نے جلاد کے اس فیصلے کو سنتے ہی جلاد کو حکم دیا کہ تمھارا پھانسی کا پھندا جس شخص کے گلے میں فٹ ہوتا ہے اسی شخص کو پھانسی دے دو بالکل اسی طرح آج اس ملک جس کے حصول کی خاطر ہمارے بزرگوں نے لاتعداد قربانیاں دیں تھیں کے قانون کے محا فظ جہنوں نے پولیس کی وردیاں پہننے سے قبل یہ حلف اٹھایا تھا کہ ہم ہمیشہ اپنے ملک و قوم کی جان و مال اور عزتوں کے محا فظ بن کر اپنے فرائض و منصبی ادا کرے گے۔

خواہ ہمیں اس فرائض کی ادائیگی کے دوران شہادت کے رتبے سے ہی کیوں نہ سرثار ہونا پڑے اور ایسا ہوا بھی لیکن افسوس کہ بعض پولیس افسران و دیگر ماتحت عملہ ارباب و بااختیار کو اپنی اعلی کارکردگی دکھانے کیلئے غریب اور بے بس افراد کو ناکردہ جرائم میں ملوث کر کے نہ صرف ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں بلکہ مذکورہ پولیس اہلکار اپنے فرائض و منصبی کی ادائیگی کے دوران شہادت پانے والے پولیس اہلکاروں کے نام پر بھی ایک بد نما داغ بن کر رہ گئے ہیں جس کی ایک چھوٹی سی مثال میں آج وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف چیف سیکرٹری پنجاب گورنر پنجاب انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس مشتاق احمد سکھیرا آر پی او فیصل آ باد اور ڈی پی او جھنگ ہمایوں مسعودسندھو کے علاوہ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس آف ہائیکورٹ لاہور کی نظر کر رہا ہوں ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز اپنے فرائض کی ادا ئیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران تھانہ سٹی جھنگ کے علاقہ عامر ٹائون کے رہائشی محمد شاہد منظور ولد منظور حسین شاکر مرحوم قوم مغل کی اہلیہ اپنی جواں سالہ بیٹی اور معصوم بچوں کے ہمراہ روتی ہوئی میرے دفتر میں داخل ہوئی اور مجھ سے مخا طب ہو کر کہنے لگی کہ بھائی توصیف کہ آپ تو ہمیں بخوبی جانتے ہیں۔

Abduction

Abduction

کہ میرا خاوند محمد شاہد منظور میری اور میرے پانچ بچوں کی پرورش رات دن مزدوری کر کے کرتا تھا حالانکہ جس مکان میں ہم رہتے تھے وہ بھی کرایہ کا تھا وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک دن میرے پانچ سالہ معصوم بیٹے کو ہمارے پڑوسی دوکاندار نے اغواء برائے راوان کیلئے موت کی گھاٹ اتار دیا جس کی نعش کو انہوں نے بڑی بے دردی کے ساتھ حفاظتی بند جھنگ کے سیم نالہ میں پھینک دی تھی جس کی جدائی میں ہم سب گھر والے خون کے آ نسو روتے تھے کہ اسی دوران تھانہ سٹی جھنگ کے ایک فرض شناس آ فیسر نے ملزمان کے مو بائل فون کے نمبر سے ٹریس کر کے ملزمان کو گرفتار کر کے ان کی نشاہدہی پر میرے معصوم بیٹے کی نعش کو برآ مد کر لیا بعد ازاں ہم نے اپنا سب کچھ فروخت کر کے بالخصوص علاقے کی عوام کے خصوصی تعاون سے گرفتار ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔

لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں بھی غریبی آ ڑے آ گئی جس کے نتیجہ میں دو ملزمان بری ہو گئے جبکہ ایک ملزم جیل میں ہی مر گیا جبکہ ہم ماسوائے رونے کے اور کچھ نہ کر سکے بھائی توصیف خداوندکریم کرے کسی بھی غریب شخص پر بُرا وقت نہ آئے اس بُرے وقت میں اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے قصہ مختصر وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک منحوس دن مجھے معلوم ہوا کہ میری دونوں جواں سالہ بیٹیاں بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر کسی غیر محرم افراد کے ساتھ بھاگنے کا پروگرام بنا رہی ہیں جس کی بروقت اطلاع میں نے اپنے خاوند کو دی جس نے روتے ہوئے مجھ سے کہا کہ خدا کیلئے اپنی بیٹیوں کو روکو کہ وہ مجھے زمانہ بھر میں رسوا کر کے گھر سے نہ بھاگے میں ان کی شادی ان کی مرضی کے مطا بق کرنے کو تیار ہوں وہ مجھ پر اتنا ترس کھا لیں کہ وہ اپنے آ شنائوں کو کہے کہ وہ اپنے ورثا کو میرے پاس بھیج دیں میں بغیر کسی وجہ کے ان کے ورثا کو ہاں کہہ دوں گا بحرحال میری بیٹیاں میری اس التجا کو مان گئیں اور انہوں نے اپنے آ شنائوں کے ورثا جو کہ امیر ترین تھے کو ہمارے گھر آنے پر مجبور کر دیا۔

Wedding

Wedding

جن کی ہم نے اپنی عزت بچا نے کیلئے باقاعدہ شادی کر کے رخصت کر دیا لیکن شادی کے چند ماہ بعد ہی ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارا چھوٹا داماد صلاح الدین ولد سلطان قوم سید بخاری سکنہ گرین ٹائون فیصل آ باد ڈکیتی کی مختلف وارداتوں میں مختلف تھانوں کی پولیس کو مطلوب ہے جس کے نتیجہ میں ہم نے بذریعہ اخبار لا تعلقی کا اشتہار دے دیا جبکہ اس دوران ہمارا داماد ہماری بیٹی کو لیکر نجانے کس مقام پر روپوش ہو گیا جبکہ قانون کے محافظ پولیس افسران اس کے امیر ترین ورثا جو کہ یہی جھنگ میں گولڈ کا کام کرتے ہیں کو گرفتار کرنے کے بجائے میرے خاوند محمد شاہد منظور جو کہ علاقے میں ایک چھوٹے سے کلینک پر کام کر کے میری اور میرے بچوں کی پرورش کر رہا ہے کو گرفتار کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنا کر پوچھتے ہیں کہ تمھا را داماد کہا ں ہے حالانکہ میں یہ حلفا کہہ رہی ہوں کہ میں نے اور میرے خاوند نے عرصہ سولہ ماہ سے اپنی بچی کی شکل تک نہیں دیکھی ہاں البتہ میری بیٹی کا ایک دو دفعہ فون ضرور آ یا ہے۔

جس کی اطلاع ہم متعدد بار قانون کے محافظ پولیس افسران کو دے چکے ہیں اس کے باوجود بھی قانون کے محافظ پولیس افسران ہمیں ہراساں کرنے میں مصروف عمل ہیں گزشتہ روز بھی تھانہ سیٹلائٹ ٹائون جھنگ کے محا فظوں نے میرے خاوند کو اس وقت گرفتار کر لیا کہ جب وہ کلینک پر کاروبار نہ ہونے کے سبب ایک چائے کا ہوٹل بنوانے میں مصروف عمل تھا حالانکہ میں اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ مذکورہ تھانہ کے انچارج کو ملی بھی ہوں اور اسے روتے ہوئے میں نے اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کے بارے میں آ گاہ بھی کیا ہے لیکن وہ ہم پر ترس کھانے کے بجائے بس یہی کہتا ہے کہ یہاں ایک چوری ہوئی ہے اپنے داماد کو لے آئو اور اپنے خا وند کو لے جائو یہ کہہ کر وہ زاروقطار رونے لگ گئی جبکہ میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ ہمارے ملک کے قانون کے محافظ پولیس افسران کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس شخص کو ہم گرفتار کر رہے ہیں اس کا مفرور ملزمان سے کوئی قریبی واسطہ ہے یا نہیں بلاوجہ کسی شخص کو گرفتار کرنا نہ صرف قانون بلکہ انسانیت کی تذلیل ہے۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو میں مر جائوں گا
میں تو ایک دریا ہوں سمندر میں اتر جائو ں گا

تحریر: شیخ توصیف حسین