حضور! میرا میمنہ مر جائے گا

King

King

تحریر: شاہ فیصل نعیم
صدیوں سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ جنگل پہ حکمرانی کا حق صرف شیر کو حاصل ہے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ جنگل کے تمام باسی اس نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور صدیوں سے قائم اس بادشاہت کو ماننے سے انکار کردیا۔

اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں جمہوریت چاہیے ہم اُسی کو اپنا بادشاہ مانیں گے جسے اکثریت چُنے گی۔ کرسی کا اپنا ہی ایک نشہ ہے اور جب کرسی والیِ سلطنت کی ہو تو نشہ دیوانگی میں بدل جاتا ہے اور دیوانہ انسان اپنی چاہت کو پانے کے لیے سب کچھ جائز سمجھتا ہے چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز۔

Empire

Empire

بادشاہ نے طاقت کے ضرور پر بغاوت کی اُٹھنی والی ہر آواز کو خاموش کروانے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نا ہو سکاکیونکہ پوری کی پوری سلطنت نے اُسے اپنا فرمانروا ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ آخر کار بادشاہ کو ملک میں عام انتخابات کروانے کا حکم دیتے ہوئے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

انتخابی مہم بڑے زورو شور سے چلنے لگی بالکل ویسے ہی جیسے آج کل تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے۔ انتخابات کا دن آگیا ہر کسی نے رائے دہی کا اظہار کیا اور نتیجے میں بندر بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا۔ بندر تخت پر براجمان اقتدار کے مزے لوٹنے لگا وقت گزرتا گیا بادشاہت چلتی رہی ۔

Lion

Lion

ایک دن بادشاہ سلامت مسندِ اقتدار پہ متمکن تھے کہ ایک روتی ہوئی بکری دربار میں حاضر ہوئی اور آکر عرض کی: “حضور! میرے میمنے کو شیر اُٹھا کر لے گیا ہے۔ خدا آپ کا اقتدار سلامت رکھے کسی طرح میرا میمنہ بچالیجیے “۔ بکری کی بات سنتے ہی بادشاہ سلامت نے اُچھل کود شروع کر دی اس درخت سے لٹک کراُس درخت پر اور کبھی اُس درخت سے چھلانگ لگا کر اس درخت پر ۔

بیچاری ڈر کی ماری بکری کافی دیر یہ صورتِ حال دیکھتی رہی آخر جان کی امان پاتے ہوئے کہنے لگی : “بادشاہ سلامت شیر میرے میمنے کو مار دے گا آپ جلدی کچھ کریں”۔
بندر ایک دم سے رکتا ہے بکری کی جانب متوجہ ہوتا : “دیکھو بی بی ! تمہارے میمنے کی جان بچتی ہے یا نہیں اُس کا مجھے نہیں پتا۔ ہاں اگر میری بھاگ دوڑ میں کوئی کمی ہے تو بتائو”؟

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر: شاہ فیصل نعیم