قلم کی حرمت اور آج کا صحافی

Journalist

Journalist

تحریر : منظور فریدی
قلم وہ تیز نازک اور مقدس ہتھیار ہے جس کی اللہ کریم نے قرآن پاک میں قسم کھائی ارشاد ربانی ہے کہ،،قسم ہے قلم کی اور جو یہ لکھتا ہے،،دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ،،اورہم نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا،،تو اللہ کریم کے ارشادات کی روشنی میں قلم علم کا ذریعہ اور پھر اسکی تحریر کی قسم کھا کر اللہ نے واضح فرما دیا کہ قلم کی حرمت کیا ہے میرا صحافت کی دنیامیں پہلا قدم ایک کالم نگار کا کے ایک جملہ سے ہوا ،،کسی خبر پر تبصرہ تھا اور میرے محترم بھائی نے لکھا کہ صحافی کبھی بھی اپنے قلم کی حرمت کو پامال نہیں کرتا کیونکہ اسے قلم کی طاقت کا علم ہوتا ہے مذہبی گھرانہ کا فرد تھا قرآن پاک کی تعلیم بچپن میں اپنے بزرگوں سے حاصل کرچکا تھا اور سونے پہ سہاگہ کا کام میرے شیخ طریقت رہبر کامل و اکمل سید نیاز حسین قادر ی نے فرمادیا ۔آپ علوم فقہ حدیث۔تفسیر اور بالخصوص عربی گرائمر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔سمجھانے کا انداز ایسا تھا کہ آپ کی گفتگو سے ہی بات دل میں گھر کر جاتی۔

آپ کے ارشادات کی روشنی میں ایک ہفت روزہ اخبار میں دینی کالم لکھنا شروع کیا ۔میرے کالموں سے مجھے اخبارات سے لکھنے کی دعوت ملتی اور یوں میں نے بطور کالم نگار آغاز کیا ۔ایک دوست نے کہا کہ آپ صرف مسجد کے اند ر ہی رہیں گے کہ علاقائی اور ملکی مسائل پر بھی کچھ لکھو گے؟ میں نے اپنے علاقہ کے مسائل پر خبروں اور کالم کی شکل میں لکھا صد شکر کہ میری تحریروں سے علاقائی مسائل میں سے ذیادہ تر ارباب اختیا رنے حل کیے۔یہ ساری رام کہانی اکیسویںصدی کے آغاز سے قبل کی ہے۔اس کے بعد کچھ عرصہ ذاتی مسائل اور خاندانی چپقلش کی وجہ سے میں محض لکھاری سے قاری تک رہ گیا ۔2014 کے آغاز میں علاقہ کے ایک سید زادہ نے گھر آکر مجھے سخت کڑوی کسیلی سنائی اور حکم دیا کہ میں دوبارہ بطور صحافی ان کا پریس کلب سنبھال لوں ۔پیر پرستی اور احترام سادات کی وجہ سے انکار نہ کر سکا۔

ایک اخبار سے رابطہ کیا تو حیران ہو کر رہ گیا کہ ادارہ کے انچارج نمائندگان نے مجھ سے ایک بھاری رقم طلب کر لی خیر یہ ایک الگ داستان ہے ۔میں نے دوبارہ اس شعبہ میں آکر جو دیکھا شرمناک حدتک غلط ہے۔اداروں کو صحافی یا اہل قلم سے سروکار نہیں بلکہ انہیں اپنا بزنس عزیز ہے ۔نمائندگی دیتے وقت کوئی معیار نہیں تعلیمی قابلیت کی ضرورت نہیں بلکہ بنیادی اور مرکزی شئے صرف پیسہ ہے علاقہ میں صحافت کا ایک ایسا کھیت اگ چکا ہے کہ ہر تیسرا شخص کسی نہ کسی اخبار کا نمائندہ ہے ۔کم ازکم مجھے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ یہ سب کیسے ہو گیا ۔ہر بزنس مین نے اپنے بزنس ڈسپلے پر کسی بڑے اخبار یا ٹی وی چینل کا جہازی سائز کا بورڈ لگایا ہوا ہے کیوں ؟ اسے کیوں ضرورت پڑی کہ وہ اپنے بزنس کے ساتھ ساتھ صحافت بھی کرے۔

Writing

Writing

میں کافی دن پریشان رہا اسی دورانیہ میں مجھے اپنے شہر میں ایک محکمہ کے ضلعی آفیسر سے کام پڑگیا میں اسکے دفتر گیا دروازہ پر کھڑے اردلی کو اپنا تعارفی کارڈ تھما کر میں نے ملنے کی درخواست کی اردلی میرا کارڈ لیکر اندر گیا اور تھوڑی دیر بعد باہر آیا تو میرے کارڈ کے ساتھ پانچ سو روپے کا نوٹ لاکر میرے ہاتھ میں تھما دیا اور کہا کہ صاحب مصروف ہیں ۔میں پھر اندر بھی گیا کام بھی کروا لیا اور اس صاحب کو اس کی رقم بھی واپس کی مگر یہاں آکر مجھے صحافت کی ساری کہانی کی سمجھ آگئی وہ عزت وہ وقار جو ہم نے اپنے الفاظ کے موتی بکھیر کر بنایا تھا وہ ختم ہو چکا ہے ۔صحافت سے دیہاڑی لگانے والوں نے ہر شعبہ کو اتنا تنگ کیا کہ ہر طبقہ سے لوگ صحافت میں آگئے۔کوئی میک اپ (کاسمیٹکس ) ۔کوئی چاول ۔کوئی دال اور حتیٰ کہ میں نے ایک سموسے بیچنے والے صحافی کو بھی دیکھا کہ اسکی موٹر سائیکل پر پریس کی پلیٹ لگی ہوئی تھی۔

میں نے پوچھ لیا کہ بھائی جا ن آپ کیوں اس شعبے میں آئے تو اس نے کہا کہ فلاں فلاں آئے دن آکر مجھے ڈرا دھمکا کر پانچ سو لے جاتے تھے میں نے پانچ ہزار دیکر اپنا پریس کارڈ بنوالیا اور اب وہ میری دوکان پر نہیں آتے۔میرا اخبار کے ایڈیٹر کے پیسے مانگنے سے لیکر پانچ سو کے نوٹ ملنے تک کا سفر پورا ہوگیا ۔صحافت اب اس طوائف کی طرح ہے جو تماش بینوں میں گھر چکی ہو۔۔میرے شہر کی صحافت کا حال مت پوچھو
گھری ہے طوائف تماش بینوں میں
گرد آلود ہوا شہر کا موسم اس قدر
آگھسے زاغ بھی شاہینوں میں

آخر میں اہل قلم اور کھری صحافت کے علمبردار اپنے قلم سے ہمیشہ حق سچ لکھ کر جہاد کرنے والے اصحاب کو سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ یہی تو میرے اساتذہ اور اس ڈوبتی نائو کے سہارے ہیں اور اللہ کریم اپنے حبیب کبریا کا صدقہ اس مقدس شعبہ سے وابستہ تمام مجاہدین کو انکا وہ مقام واپس دے جو اسلاف نے قید وبند کی صعوبتیں بھوک پیاس حتیٰ کہ فاقے بھی برداشت کرکے حاصل کیا اور حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس شعبہ کے لیے مناسب قانون سازی کرکے محض شیلٹر حاصل کرنے والے لوگوں اور دینے والے اداروں کے خلاف مناسب کاروائی کرے اور پرنٹ میڈیا مالکان سے دست بستہ التماس ہے کہ وہ ادارہ کے دفاتر کو طوائفوں کے کوٹھے نہ بنائیں کہ جو بھی پیسہ دکھائے وہ آپ کا نمائندہ بن جائے بلکہ کوئی تو معیار بھی ہو والسلام

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور فریدی