کس دیس کے باسی

Society

Society

تحریر : ریاض ملک بوچھال کلاں

معزز قارئین انسان جب اپنے اردگرد نظر دوڑائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس خوبصورت جہاں میں جانے کتنے تلخ حقائق ہیں جن سے ابن آدم نگاہیں چرائے اپنے ہی زیست کو سنوارنے میں لگا ہوا ہے انسان وہ ہستی ہے جسے خدائے بزرگ و برتر نے اشرف المخلوقات کے بلند و بالا مقام پر فائز کر کے زمین پر اپنی نیابت کا شرف عطا کر دیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کریم نے انسان کو نیابت و نبوت جیسے مقام عطا کر کے فرشتوں سے بھی اھضل کر دیا بقول اقبال فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان نے انسانیت کے اس اعلیٰ منصب کے فرائض کو کس طرح سر انجام دیا اگر نسل انسانی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اس خوبصورت معاشرے میں غیر مساواتی رویوں نے ایسا تضاد پیدا کر دیا ہے جسے انسانیت بری طرح پامال ہو رہی ہے یہاں کوئی تو زندگی کے مزے لوٹنے میں محو ہے اور کوئی ایک ایک لمحے کو ترس رہا ہے ان حالات میں کیا حضرت انسان فرائض کی انجام دہی سرخرو ہے اگر ہے تو کیا اس نے اپنے آس پاس ان لوگوں کا بھی حق ادا کیا ہے کہ جن کو اپنے ہی حقوق کا علم نہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فیصلہ ہی نہیں کر پایا جا رہا کہ یہ کون ہیں ان کا مقام ان کی پہچان کیا ہےَ؟

میں بات کر رہی ہوں ان لوگوں کی جن کو ہم اکثر سڑک کنارے بے آب گیاں مقامات پر بستے دیکھتے ہیں ان کو حرف عام میں (جھگی والے کہتے ہیں) ان کے پاس سے پمہ وقت بڑے بڑے عالم معلم سیاست دان معالج تاجر روحانی پیشوا اور نہ جانے کیسی کیسی ہستیاں کمال بے نیازی سے گزر جاتی ہیں یہ سوچے بنا کہ یہاں اشرف المخلوقات حالات کے کن تھپیڑوں سے نبر آزما ہے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ جب ہم اپنے ٹھنڈے پر سکوں گھروں میں لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ تپتی چلچلاتی دھوپ میں اپنے معصوم بچوں کو کیسے سکون پہنچا تے ہیں جب ہم آندھیوں طوفانوں اور بارشوں میں بند دروازوں اور کھڑکیوں میں شدت موسم سے خود کو محفوظ کر رہے ہوتے ہیں تب ان کے ٹاٹ کے گھروندوں کی کیا حالت ہوتی ہو گی جب ہم سیراب آب ہوتے ہیں تب یہ بوند بوند ترستے لوگ جانے کہاں کہاں مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان تمام محرومیوں کے باوجود یہ لوگ چین کی بانسری بجاتے ہیں سوچنا یہ ہے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جنہوں نے انہیں اتنا بے حس کر دیا ہے کہ انہیں زندگی کی تلخی محسوس ہی نہیں ہوتی یا اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ اس تلخی کو انہوں نے اپنی طاقت بنا لیا ہے۔

میں نے جب ان کی زندگیوں کو قریب سے دیکھا تو یوں لگا کہ ان کے جزبات سردان کے احساسات کو نابود کر کے ان کو محض حصول لقمہ کی فکر سے بغل گیر کر کے اس کو مقصد حیات بنا دیا ہے میں نے اکثر ان کی خواتین کو بغیر کسی رشک و حسد کے اپنے جیسی ہی صنف کے سامنے دست دراز کرتے دیکھا ان بچوں کا مشاہدہ کیا جو ننگے پائوں میلے کچیلے لباس میں پیشہ ورانہ صدائیں لگا رہے ہوتے ہیں انتہائی عجیب بات یہ ہے کہ یہ بچے ہمارے صاف ستھرے آسائشوں سے بھر پور بچوں کو حسد بھری نظروں سے دیکھتے ہی نہیں انہیں صرف ایک لقمے کی فکر ہے کسی کے اعلیٰ سٹیٹس سے ان کو کوئی غرض نہیں ایسا کیوں ہے ؟ یہ لوگ کیوں احساسات سے عاری جزباے سے محروم اور اپنے آپ سے اجنبی ہیں میں جس نتیجے پر پہنچی ہوں وہ یہ ہے ان لوگوں نے اس حقیقت کو کھلے دل سے قبول کر لیا ہے کہ ہم جھگی والے اس عالم انسانی میں سوائے ہایھ پھلائے دو وقت کی روٹی کے چند لمحوں کی مسکن نشینی کے کوئی حق نہیں رکھتے انہیں نہ تو کسی کے باوقار نظام زندگی سے غرض ہے اور نہ ہی یہ کسی کے پھولوں کی سیج کو اپنے کانٹوں بھرے بستر پر فوقیت دیتے ہیں اور نہ انہیں دھوپ چھائوں علاج نہ تعلیم کی فکر ہے کیونکہ انہوں نے بڑے مزے سے خود کو اس حق سے دستبردار کر لیا ہے یہ سب دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے حقوق میں نہ تو( روٹی کپڑا مکان ہے) اور نہ ہے پڑا لکھا پنجاب اسی لئے یہ عظیم لوگ فکروں سے آزاد ہیں ایک ہم ہیں کہ ہزاروں آسائشوں کے باجود بے چین و بے قرار ہیں اس کی وجہ ہمارا اپنا کردار ہے جس نے ہمیں کبھی دوچنے ہی نہین دیا صرف اپنی زات کو سنوارنے میں سرانجام ہوتا رہا زرا سوچیے ان جھگیوں میں کتنا ٹیلنٹ تباہ ہو رہا ہے کتنے قابل لوگوں کی قابلیت کا خون ہو رہا ہے۔

کتنے لوگ علاج کے بغیر مر رہے ہیں کتنے بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں کتنی عزتیں غلیظ نگاہوں کے حصار میں ہیں کتنے بزرگ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیںکوئی ہے ََ؟ جو ان کے حقوق کے لئے جدو جہد کرے کوئی عالم مفتی پیر وزیر بادشاہ میڈیا این جی اوز ہے کس کے پاس ٹائم یا ہمت ہے جو ان چند سروں کو چھت دلا سکے حکومتیں اتنی بڑی بڑی گرانٹس جاری کرتی ہیں ان میں سے تھوڑا سا حق ان کا بھی ہو قومی خزانے کو جو بے دریغ لٹایا جا رہا ہے اس میں ان کا بھی تھوڑا سا حصہ ہو وہ صاحب حثیت لوگ جو اپنے زاتی فنگشنز پر پانی کی طرح دولے کو بہاتے ہیں اس دولت میں معمولی سا حصہ ان کے لئے مختص کر کے ان کو بھی باعزت جینے کا حق دے سکتا ہے زرا سوچیے جب ہم اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونگے تو ہر ابسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا ہر کسی سترعیت کا حساب مانگا جائے گا تب کیا ہو گا موزز قارئین اس بات کا فیصلہ آپ کریں کہ یہ کس دیس کے باسی ہیں ان کی زمہ داری کس پر ہے کہ کیا یہ انسان نہیں کیا مواشرے پر ان کے حقوق واجب الادا نہیں آخر میں حکمران طبقے سے ایک سوال کہ کیا آپ دنا بھر میں اپنی جمع کی گئی تجوریوں میں سے ان کو مستقل متیمی کا حق نہیں دے سکتے یادرکھیں اللہ نے آپ کو اس منصب پر فائز کیا جس پر فائز ایک عظیم انسان نے اپنی ریاست میں بھوک سے مر جانے والے کتے کی موت کا زمہ دار بھی خود کو ٹہرایا میری آپ سب سے Requestہے کہ ضرور سوچیے کیونکہ جب انسان سوچتا ہے فیصلہ بھی کر لیتا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کی طاقت بھی رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر : ریاض ملک بوچھال کلاں
03348732994
nalikriaz57@gmail.com