کے پی کے میں درختوں کی حالت زار

KPK Trees

KPK Trees

تحریر : سردار منیر اختر
کے پی کے حکومت نے سونامی بلین آف ٹری سکیم کے تحت خیبر پختون خواہ میں درخت لگانے کا آغاز کیا جس کا فوکس جنگلات تھے جہاں پہ ان کو لگایا گیا،درخت کسی بھی ملک کی ترقی کا ایک اہم اور بہترین سنگ میل ہیں جو ہر ملک کی زر مبادلہ کے ساتھ ساتھ موسمی حالات کو بہتر کرنے اور بارشوں سے پیدا ہونے والے کٹاو کو روکنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوتے ہیں، بدقسمتی سے گرمیوں کے موسم میں ہم میں سے ہر شخص بھی اپنی گاڑی یا موٹر ساہیکل کے لیے درخت کا سایہ تلاش کرتا ہے لیکن کوئی بھی شخص درخت لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا جو کے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

اگر ضلع ایبٹ آباد کے مشہور گاوں ستوڑہ کی بات کی جائے تو آج سے ٹھیک تین چار سال پہلے تک اس خوبصورت پہاڑی علاقے کے اطراف میں پھیلے جنگلات کو خود ہی محکمہ جنگلات کے ملازموں نے گاجر مولی کی طرح کٹوا کے جو پیسہ جیبوں میں بھرا اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی،محکمہ جنگلات کے اہلکار قیمتی درختوں کو صرف چند سو روپوں کے عوض سر عام فروخت کر دیتے تھے جو صرف اور صرف محکمہ جنگلات کے فروخت کندہ ملازم کی جیب میں جاتے تھے اور اس میں حکومت پاکستان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا،چونکہ حکومت کو حصہ نہیں تھا لہذا یہ اہلکار اس کو باپ دادا کا سرمایہ سمجھ کے بلا جھجک فروخت کرتے تھے۔

جب سال کے آخر میںمحکمہ جنگلات کے ایک یا دو آفیسر چیکنگ کے لیے آتے تھے تو وہ ان جنگلات کی چیکنگ کرنا پہاڑوں پر چڑھ کے درختوں کی حالت زار دیکھنا اپنی توہین سمجھتے تھے،وہ صرف ریسٹ ھاوس میں ڈیرہ لگا کے دیسی مرغوں سے اپنی پیٹ پوجا کر کے اور دیسی انڈوں سے اپنی خاطر تواضع کروا کے واپسی کی راہ اختیار کرتے تھے جب یہ واپسی کا رخت سفر باندھتے تو ان کے زیرسایہ کام کرنے والے راشی ملازم علاقے سے چند دیسی مرغے یا لڑائی میں مہارت رکھنے والے کتے ان کو پیش کر کے ان کی خوشنودی حاصل کرتے تھے اگر کوئی مقدر کا مارا آفیسر جنگل کی چیکنگ کے لیے پہاڑوں کا رخ کر بھی لیتا تو پہلے سے محکمہ جنگلات کے ملازم اس کا بندوبست کر کے رکھتے تھے ،گاڑیوں کا جلا ہوا انجن آہل یہ ان درختوں کٹنے کے بعد رہ جانے والی باقیات پر لگا دیتے تھے جس سے دو دن پہلے کٹنے والا درخت ایسے لگتا تھا کے کئی سال پہلے کٹا ہے یوں یہ اپنی فرض شناصی پیش کرتے تھے کے ہم احسن طریقے سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دئے رہے ہیں۔

وقت کا دھارا بہت تیز ہے جو کسی کا انتظار نہیں کرتا یوں ہی دن گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ان جنگلات کی کٹائی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو یہ درختوں کے قدرتی حسن سے لیس پہاڑ دن بدن اپنی خوبصورتی کھونے لگے اور درختوں سے عاری ہو کر چٹیل بننا شروع ہو گے،محکمہ جنگلات کے ملازموں نے کبھی کہاں کبھی کہاں ڈیوٹی کرنی تھی لیکن باپ کی جاگیر سمجھ کر گاجر اور مولی کی طرح کٹوانے والے ان درختوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا،اہلیان علاقہ قوم قبیلے اور برادری کا لحاظ رکھتے ہوئے خاموش تمشائی بنے رہتے تھے کے اگر کسی کے خلاف آواز اٹھائی تو کل مشکل وقت میں کوئی ساتھ نہیں کھڑا ہو گا یوں کے پی کے حکومت کا یہ قابل تعریف کام تھا کے جنگل کو عام عوام کے لیے بند کر کے دوبارہ سے اسن پہاڑوں کو قدرتی حسن سے لیس کرنے کی کوشش کی گئی اور بلین سے زیادہ درخت لگائے گئے اور اس بار بھی وہی ہوا کے اس کو جہالت کیے یا سیاسی عناد جو بھی ہے کسی نے لورہ کے گاوں گڑھی میں موجود ان درختوں کو آگ لگا دی جس کی وجہ سے یہ ننھے منے پودئے ہزاروں کی تعداد میں جل کر راکھ ہو گئے۔

ایک بار پھر پہاڑوں کے حسن کو دوبارہ قائم رکھنے کی تمام کاوشیں دم توڑ گئیں۔یہ بلکل ایسا ہی واقع ہے جب پورا سال محکمہ جنگلات کے اہلکار درخت کٹوا کٹوا کر ثبوت ختم کرنے کے لیے ان کی باقیات کو آگ لگا دیتے ہیں تا کے یہ ثبوت ہی ختم ہو جاہیں،ثبوت ختم کرتے کرتے ان لاکھوں روپوں کے ننھے منے پودے بھی جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کے وادی ستوڑہ میں جنگلات کی کٹائی میں ایک ہاتھ جرائم پیشہ لوگوں کا بھی تھا جن کا تعلق دور دور تک اس گاوں سے نہیں تھا لیکن پولیس سے بچنے کے لیے دور دراز علاقوں میں جرم کر کے بھاگ کے ان پہاڑوں کو اپنی کمین گاہ بنا لیتے تھے کیونکہ یہ پہاڑ بلکل روڈ کے سامنے تھے اور جب کبھی بھی بھول چوک کے پولیس کی کوئی گاڑی آ جاتی تو یہ دیکھ لیتے اور کنارہ کشی کر کے غائب ہو جاتے جب یہ لوگ بھی عادی ہو گئے تو انہوں نے بھی درخت کٹوا کے ان کی فروخت کا کاروبار شروع کر دیا یوں ان کے ڈر اور خوف سے کے کوئی ان کا نام لے گا تو یہ رات کی تاریکی میں آ کے بدلہ لیں گئے نہیں بول پاتا تھا۔حکومت کے پی کے اگر ان سابقہ حالات و اقعات پہ ایک نظر ڈالے تو اس کا سدباب ہو سکتا ہے بصورت دیگر جتنے بھی درخت لگائے جاہیں گئے وہ اسی طرح جل جل کے راکھ ہوتے رہیں گئے۔

Sardar Munir Akhtar

Sardar Munir Akhtar

تحریر : سردار منیر اختر
سردار ھاوس رہبر کالونی ایچ ایم سی ٹیکسلا
ضلع راولپنڈی پنجاب پاکستان
رابطہ نمبر:03135295509
شناختی کارڈ نمبر:13101-8203357-5