کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا: پاکستان

kulbhushan Yadav

kulbhushan Yadav

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں زیر حراست اور فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے کلبھوشن یادو کے معاملے پر بھارت کی طرف سے عالمی عدالت انصاف میں دائر درخواست کی سماعت پیر کو ہوئی۔

بھارت کی طرف سے عالمی عدالت انصاف ’آئی سی جے‘ سے استدعا کی گئی کہ کلبھوشن یادو کی سزا پر عمل درآمد روکنے کے لیے پاکستان کو احکامات جاری کیے جائیں۔

پاکستان کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

پاکستان کے وکلا ٹیم میں شامل خاور قریشی نے کہا کہ کلبھوشن یادو کا معاملہ ہنگامی نوعیت کا نہیں اور اُن کے بقول جینوا کنونشن کے تحت یہ درخواست عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔

نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ میں دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد عدالت برخواست کر دی گئی اور کہا گیا کہ جلد از جلد اس پر فیصلہ سنایا جائے گا۔

بھارتی وزیر خارجہ سمشا سوراج نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ ایک سینیئر وکیل ہریش سالوے بھارت کی طرف سے عالمی عدالت انصاف میں اُن کے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے عالمی عدالت انصاف میں پیش ہونے والی ٹیم کی قیادت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کر رہے ہیں۔

ایک معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عالمی عدالت انصاف میں اُسی صورت کسی معاملے پر پیش رفت ہو سکتی ہے جب دونوں فریق باہمی رضا مندی سے اس ’آئی سی جے‘ سے رجوع کریں۔

’’عمومی صورت حال انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس کی یہ ہے کہ دونوں ممالک جب تک متفق نا ہوں کہ ہم اپنے اس جھگڑے کو (آئی سی جے) میں لے جانا پسند کرتے ہیں۔۔۔۔ تو اس صورت میں اُن (عالمی عدالت انصاف) کو (سننے کے) یہ اختیارات ہوتے ہیں ورنہ نہیں ہوتے ہیں۔‘‘

وکیل ایس ایم ظفر کا کہنا تھا جب دونوں فریق باہمی رضا مندی سے کسی معاملے کے حل کے لیے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرتے ہیں تو اُسی صورت میں وہ ’آئی سی جے‘ کا فیصلہ ماننے کے پابند ہوں گے۔

’’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی عدالت میں ایک اصول طے ہو جاتا ہے۔۔۔۔ پابندی تو نہیں ہوتی ہے پھر معاملہ لے کر جانا پڑتا ہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۔۔۔ میں اس پر (اس وقت) مزید کچھ نہیں کہنا چاہوں گا، سوائے اس کے کہ یہ کہنا درست کہ فیصلے آتے ساتھ اُس (پر عمل درآمد) کی پابندی نہیں ہوتی۔‘‘

ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں پاکستان کے پاس اتنا مواد ضرور ہے، جس کے بنیاد پر یہ کہا جائے گا کہ عالمی عدالت انصاف یہ معاملہ سننے کی مجاز نہیں۔

’’میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے پاس ابتدائی اعتراض اٹھانے کے لیے کہ آپ (آئی سی جے) کے اختیارات نہیں ہیں بہت سا مواد موجود ہے۔‘‘

واضح رہے کہ 1999 میں پاکستان نے اپنی بحریہ کا ایک جہاز بھارتی جنگی طیاروں کی طرف سے مار گرائے جانے کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا تھا، لیکن اس وقت آئی سی جے نے وہ مقدمہ سننے سے انکار کر دیا تھا۔

بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کلبھوشن یادو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ایران میں تجارت کر رہے تھے جہاں سے پاکستان نے اُنھیں اغوا کیا۔

لیکن پاکستان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ تین مارچ 2016 کو انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائی کر کے بھارتی شہری کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا ایجنٹ اور بھارتی بحریہ کا حاضر سروس ملازم ہے۔

اگرچہ بھارت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ کلبھوشن بھارتی بحریہ کا سابق افسر ہے تاہم بھارت کی طرف سے اس الزام کو مسترد کیا جاتا رہا کہ کلبھوشن کا تعلق ‘را’ سے ہے۔

پاکستان میں گرفتاری کے بعد کلبھوشن یادو کے خلاف ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل‘ یعنی ایک فوجی عدالت میں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور گزشتہ ماہ اُنھیں موت کی سزا سنائی گئی۔

فوج کی طرف سے کہا گیا تھا کہ کلبھوشن کو قانون کے مطابق دفاع کے لیے وکیل کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔ کلبھوشن اپنی اس سزا کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔

کلبھوشن کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے متنبہ کیا تھا کہ اگر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

بھارت کا یہ موقف ہے کہ کلبھوشن یادیو تک سفارتی رسائی کے لیے پاکستان سے 15 مرتبہ درخواست کی گئی لیکن اُسے منظور نہیں کیا گیا۔