لاہور کے قاتل مسیحا

Doctor

Doctor

تحریر : واٹسن سلیم گل

> گزشتہ روز ایک اور
> مسیح تعصب کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اور
> اسے مارنے والے کوئ اور نہی بلکہ
> ہمارے معاشرے کے
> نام نہاد مسیحا تھے۔تفصیلات کے
> مطابق گزشتہ دنوں ایک مسیحی خاتون
> کرن جو کہ حاملہ
> تھی اپنی چھوٹی بہن مہوش کے ساتھ
> اپنے چیک اپ کے لئے سروسسز ہسپتال
> لاہور پہنچی۔
> لیڈی ڈاکٹر نے ایک نرس سے چیک اپ کے
> لئے کہا تو کرن نے ڈاکٹر سے کہا کہ
> کچھ مسائیل
> ہیں آپ خود چیک اپ کریں جس پر ڈاکٹر
> نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئ فائل
> حاملہ کرن کے
> پیٹ پر مارتے ہوکہا کہ فیصلہ میں
> کرونگی کے تم کو کون چیک کرے گا۔
> چھوٹی بہن مہوش
> نے ڈاکٹر سے احتجاج کیا تو ڈاکٹر
> نے اسے تھپڑ مار دیا جس سے شورشروع
> ہوگیا۔ مضید
> ڈاکٹرز اکٹھے ہوگئے اور دونوں
> بہنوں کو لیبر روم میں بند کردیا۔
> ان دونوں کے بھائ
> سنیل سلیم اور انیل سلیم کرن کے
> شوہر کاشف شفیق کے ہمرا کھانہ دینے
> پہنچے تو بہنوں
> کی حالت دیکھ کر احتجاج شروع کر
> دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہاں چار
> ڈاکٹرز اور سیکیورٹی
> گارڈز نے ان تینوں کو گھیر لیا اور
> مارنا شروع کر دیا ڈاکٹرز ان کو
> مارتے تھے اور
> کہتے تھے کہ تم عیسائ چوڑے ہو اور
> ہمیں آنکھ دکھاتے ہو۔ ۔انیل سلیم
> کو ڈاکٹرز اور
> سیکیورٹی گارڈز نے گائنی وارڈ کے
> عملے کی مدد سے ایک کمرے میں بند کر
> کے لاتوں ، گھونسوں اور
> ڈنڈوں سے بری طرح سے
> مارنا شروع کر دیا جس سے اس کے
> جسم کے نازک حصوں کو
> شدید زخم آئے اور بہت
> سے ہڈیاں ٹوٹ گئ۔ مگر کسی کو بھی اس
> پر رحم نہ آیا بہنیں منتیں کرتی
> رہی مگر وہ
> مارتے جا رہے تھے۔ اور پھر انیل
> جان کی بازی ہار گیا۔ ایک نجی ٹی وی
> پر انیل مسیح
> کے باپ نے بتایا کہ انیل تو اسی وقت
> مرچکا تھا ڈاکٹرز صرف ڈرامہ کر کے
> اسے کئ
> گھنٹے ہسپتال میں رکھ کر اپنا کیس
> مضبوط کرنا چاہتے تھے کہ وہ اسے
> بچانے کی کوشش کرتے
> رہے ہیں۔ پولیس نے مقدمہ قائم کیا
> تو ڈاکٹرز نے دھمکی دے دی ہے کہ اگر
> کسی ڈاکٹر
> کو بھی اس کیس میں ملوث کیا گیا تو
> تمام پنجاب میں ڈاکٹرز ہڑتال پر
> چلیں جائیں گے۔
> اس کے ساتھ ہی ایک سنئیر ڈاکٹر نے
> میڈیا پر بیان دیا ہے کہ انیل کی
> موت دم گھُٹنے
> سے ہوئ ہے۔ انیل مسیح تین ماہ کی
> بیٹی سمیت چار کم سن بچوں کا باپ
> تھا۔ مسیحیوں کے
> خلاف امتیازی سلوک اور اس طرح کے
> واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔اس
> واقعہ نے ایک
> خاندان کی زندگی برباد کر دی ہے
> کوئ پوچھنے والا نہی ہے۔ اگر نقیب
> کا لہو پکار
> سکتا ہے تو انیل کے خون کی چیخوں پر
> غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعہ کو
> دیکھ کر
> مجھے 1982 یا شاید 83 میں
> اس سے ملتا جلتا
> ایک معروف واقعہ یاد آگیا جس میں
> میرے چند دوستوں کی زندگی کئ سال
> تک اجیرن بن گئ
> تھی۔ میں ان حالات سے بال بال بچا
> تھا۔ میرے بچپن کے ایک دوست کی بڑی
> بہن جو کہ
> اپنے پہلے بچے کی ماں بننے والی
> تھی اسے کراچی میں ایک ہسپتال لایا
> گیا وہ داخل
> ہوگئ۔ اسی رات کو اس نے ایک بیٹے جو
> جنم دیا سارا خاندان خوش تھا۔
> پرایویٹ روم تھا
> خاندان کے لوگوں کا ہسپتال میں آنا
> جانا لگا ہوا تھا۔ اسی رات کو اس کا
> چھوٹا دیور
> زیب (فرضی) اپنی بھابی کو ملنے
> ہسپتال پہنچا تو اس کا ہسپتال کی
> سیکیورٹی سے جھگڑہ
> ہوگیا۔ انہوں نے اسے مارا۔ یہ واپس
> گھر آیا کہ اپنے چند دوستوں کو
> لیکر واپس
> ہسپتال جائے گا۔ یہ کراچی کا پُر
> امن دور تھا زیادہ لوگ گھروں کے
> باہر سویا کرتے
> تھے۔ میں اور میرے چند دوست بھی
> باہر سوتے تھے۔ یہ ہماری جوانی کے
> عروج کے دن تھے
> ہماری بھی ایک گینگ ہوا کرتی تھی
> جوانی دیوانی ہوتی ہے اور ہم بھی
> لڑائ جھگڑے کے
> لئے تیار رہتے تھے۔ رات شائد ایک
> بجے میں
> نے موٹر سائکل کی آواز سنی تو موٹر
> سائیکل پر زیب تھا جس نے میرے ایک
> دوست الف کو
> اٹھایا اور کہا کہ جھگڑا ہو گیا ہے
> ابھی چلنا ہے۔ میرے دوست الف نے
> مجھے اٹھایا
> میں جاگ رہا تھا مگر میں نے جانے سے
> انکار کر دیا۔ میرے انکار کے پیچھے
> ایک اور کہانی
> تھی کہ اس واقعہ سے کچھ عرصہ قبل
> میں امتحان دیکر آرہا تھا کہ اچانک
> زیب میرے پاس آیا کہ
> ہمارے ایک بچپن کے دوست( گ)
> کو علامہ اقبال کراچی میں چند
> لڑکوں نے گھیرا ہوا ہے ہم دونوں (گ)
> کی مدد کے
> لئے کراچی ائیرپورٹ کے
> نزدیک واقع کالج
> پہنچے تو وہاں کوئ چالیس پچاس لڑکے
> میرے دوست (گ) کو دھو رہے تھے۔ ان
> لڑکوں نے
> مجھے بھی دیکھا اور گھیر لیا مگر
> زیب ہم
> دونوں کو چھوڑ کر موٹر سائیکل سمیت
> فرار گیا پھر جو ہوا وہ ایک الگ
> کہانی ہے بعد
> میں ہم نے بھی بدلہ تو لے لیا تھا۔(
> آگے چلتے ہیں) ہاں میں اس وقت سے
> زیب سے بات
> نہی کرتا تھا اس لئے میں نے اس رات
> بھی اس کی لڑائ میں حصہ لینے سے
> انکار کر دیا۔
> یہ چلے گئے۔ صبح سویرے کوئ پانچ
> بجے میرا دوست الف پریشان حالت میں
> میرے پاس آیا
> مجھے ایک پلاسٹک کی
> تھیلی دی اور کہا کہ اسے
> کہیں چھپُا دینا۔ اور مجھے خبردار
> کیا کہ میں بھی کچھ دن کے لئے کہیں
> پتلی گلی پکڑ
> لوں۔ میں حیران ہوا کہ ایسی کیا
> بات ہوئ ہے ۔ میں نے جب پلاسٹک کی
> تھیلی کھول کر
> دیکھی تو اس میں خون سے بھری شرٹ
> تھی اور ایک گولی تھی جس پر خون
> تھا۔ میرے دوست
> نے مجھے بتادیا تھا کہ زیب کو
> پولیس کی گولی لگی ہے اور یہ بھی کہ
> گولی کس نی
> نکالی ہے۔ اور وہ فرار ہوگیا تھا۔
> میں گھبرا
> گیا کہ یہ کیا ہے ۔میرے والد صبح
> سویرے اخبار ضرور پڑھتے تھے۔ صبح
> سات بجے اخبار
> خرید کر لائے تو اخبار میں زیب کے
> حوالے سے سرخیوں میں خبر تھی کہ
> زیب سمیت چند
> ڈاکوؤں نے ایک ہسپتال میں رات کو
> ڈکیتی کی کوشش کی جس پر پولیس
> مقابلہ ہوا اور زیب
> زخمی حالت میں فرار ہو گیا۔ باہر
> نکلا تو اخبار کی دکان پر تمام
> اخبارات میں یہ
> خبر شہہ سرخیوں میں شایع ہوئ تھی۔
> میں نے اپنی ماں اور باپ کو حالات
> سے آگاہ کیا
> پہلے تو جوتے پڑے پھر مجھے میرے
> ایک عزیز کے گھر چھپا دیا گیا۔ اور
> وہ تھیلی میری
> ماں نے جاکر الف کے گھر دے دی اور
> ان کو بتایا کہ پولیس ضرور اس گولی
> کے بارے میں
> پوچھے گی۔ بحرحال کوئ صبح دس یا
> گیارہ بجے پولیس نے پورے علاقے کو
> گھیر لیا۔ الف ،
> زیب، س اور کچھ دوست پکڑے گئے۔
> میرے دوست کے گھر سے وہ گولی بھی
> برآمد ہوگئ۔ میرے
> دوست الف نے پولیس سے مار کھانے کے
> باوجود بھی میرا زکر نہی ۔ ایک
> چھوٹی سے لڑائ
> تھی جسے ڈکیتی قرار دیا گیا بعد
> میں زیب کی والدہ نے بیان دیا کہ اس
> کا بیٹا اپنی
> بھابی اور بھتیجے کا دیکھنے آیا
> تھا سیکورٹی والے نے اسے گالی دیکر
> مخاطب کیا اس جھگڑہ
> ہوا جسے پولیس نے ڈکیتی کا رنگ دے
> دیا۔ رات کو ہسپتال میں کونسا کیش
> ہوتا ہے
> بحرحال ہسپتال کی انتظامیہ کے نا
> چاہنے کے باوجود بھی پولیس اپنے
> موقف پر قائم رہی
> یہ کیس کئ سال چلا کئ دوستوں کو
> اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
> اور ایک معمولی
> سے لڑائ نے ان کی زندگی بدل دی۔
> بحرحال اب اس بات کو ایک عرصہ گُزر
> چُکا ہے اس
> واقعہ سے تعلق رکھنے والا ایک دوست
> الف پاکستان میں ہے س کے بارے میں
> معلوم نہی کہ
> زندہ ہے یا نہی باقی پاکستان سے
> باہر ہیں اپنی زندگی جے رہے ہیں۔
> خدا تعالیٰ ظلم
> کرنے والے کو سزا اسی دنیا میں
> دیتا ہے۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل