لاہور کے انوکھے انداز

Minar e Pakistan

Minar e Pakistan

تحریر : مایام اعوان
لاہور شہر ہمیشہ سے ہی اپنے تاریخی مقامات کی وجہ سے خاص توجہ کا حامل رہا ہے۔ شالا مار باغ، بادشاہی مسجد، داتا دربار،لاہور قلعہ یہ سب مقامات ماضی میں سیاحوں کی نظروں کو خیرہ کرتے نظر آئے لیکن پچھلے کچھ سالوں سے لاہور شہر میں خاطر خواہ تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جن میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبے قابل زکر ہیں۔ لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی 1 ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔ آبادی کے اس بڑھتے ہوئے ریلے کو کنٹرول کرنے کے لیے اورنج ٹرین منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس سے پہلے گرین میٹرو پر کام کیا گیا۔ آمدورفت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے حکومت پاکستان نے 2005 ءمیں ایم وی اے کی مدد سے ایک تحقیق کا انعقاد کیا اس تحقیق میں ایم وی اے نے تیز ٹرانزٹ نظام کے لیے 4 بنیادی راستوں کی تعمیر کی تجویز دی جس میں گرین میٹرو، اورنج ،بلیو، اور پرپل شامل ہیں۔

ایم وی اے کی تحقیقی رپورٹ میں میٹرو منصوبہ گجومتہ تا شاہدرہ تھا جس میں 15۔5 کلو میٹر راستہ پل کی صورت جبکہ 11۔5 کلو میٹر انڈر گراونڈ تعمیر کیا جانا تھا لیکن حکومت پنجاب نے انڈر گراونڈ کی بجائے تمام راستہ پل اور زمین کے اوپر چلنے والی ٹرانسپورٹ میں بدل دیا جس کی وجہ سے گورنمنٹ کالج ، داتا دربار اور بادشاہی مسجد جیسی جگہیں جو ہمیشہ سے سیرو تفریح کرنے والوں کو متاثر کرتی تھیں خود متاثر ہو کر رہ گئیں۔میٹرو کے بعد اورنج ٹرین منصوبہ علی ٹاون تا ڈیرہ گجراں تعمیر کیا جانا ہے۔

اس تحقیقی رپورٹ میں بھی 20 کلو میٹر پل کی صورت جبکہ باقی انڈرگراونڈ تعمیر ہونا تھا لیکن اس میں بھی پنجاب حکومت نے تبدیلی کر کہ اسے پل میں تبدیل کر دیا جس کی وجہ سے چوبرچی ، گلابی باغ جیسی قدیم جگہیں بھی پس منظر میں سے جھانکتی نظر آتی ہیں۔۔ان سب منصوبوں میں ابھی تک جو چیز بری طرح سے نظرانداز کی جا رہی ہے وہ ہے اس بڑھتی ہوئی ٹریفک کے لاہوریوں کی صحت پر اثرات۔۔۔درختوں کی کٹائی ، سبزے کی کمی ، اور کنکریٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال سے درجہ حرارت میں 6 سے 8 سینٹی گریڈ اضافہ کی توقع کی جا رہی ہے۔

Orange Line Train

Orange Line Train

اس منصوبے کے باعث ہونے والے نقصانات ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آئے تاہم ان میں ٹھیلے والے ، چھوٹے بڑے کاروبار ، دوکانیں اور پلازے بھی اس منصوبے کی وجہ سے متاثر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت سے انکار کسی صورت نہیں لیکن ان پہلووں سے نظر چرانا بھی دانشمندی نہیں ہے۔ اور بھی بہت سے پہلو ایسے ہیں جو ان منصوبوں کی وجہ سے بظر انداز ہو رہے ہیں بہت سے ایریاز ایسے ہیں جن میں بنیادی ضروریات و سہولیات تک نہیں ایسے بہت سے سے پروجیکٹس بھی حکومت کی توجہ چاہتے ہیں انہیں بھی وقت اور پیسے کی ضرورت ہے۔

تحریر : مایام اعوان