زبان کی حفاظت

Muslim

Muslim

آج کل غیبت عیب جوئی بہتان الزام تراشی اور طعنہ جوئی عام ہوچکی ہے ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے پیارے آقا ۖ کے طریقوں سے کوسوں دور ہوچکے ہیں ۔سیاست ہو یا کاروبار نوکری ہو یا گھریلو امور ہم تمام چیزوں میں اسلامی شعار سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اپنی اسی زبان کے ذریعے دوسروں کیلئے کس قدر اذیت اور تکلیف کا باعث بنتے ہیں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے حالانکہ زبان کی حفاظت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک بیش بہا اور عظیم نعمت ی ہے، یہی وہ عضوِ رئیسی ہے جس کی بنا پر اِنسان کو ”علَّمہ البیان” کا سنہری اِعزاز اور باقی تمام مخلوقات پر ایک قسم کی فوقیت وبرتری حاصل ہے۔

وہ زبان ہی ہے جس کے ذریعے محبت ونفرت، فکر وپریشانی، لطف وراحت، دِلداری وتسکین، ترغیب وترہیب کا مکمل طور پر اِظہار ممکن ہے۔ جسمِ انسانی کے اس مختصر سے عضو کے مادّی فوائد پر غور کریں تو دْنیا کا سارا لطف اسی پر منحصر نظر آتا ہے، چنانچہ ذائقہ خورد ونوش کا مدار ومحور یہی زبان ہے اور اس کے بغیر سارے ذائقے پھیکے اور بے معنی معلوم ہوتے ہیں، اسی کے ایک بول سے دوست دْشمن اور دْشمن دوست بنتا ہے، اسی سے بڑے بڑے فتنے برپا اور اسی سے مسدود ہوتے ہیں۔ اور دینی اِعتبار سے اس کی اہمیت وحیثیت کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ توحید ورسالت پر اِیمان بھی زبانی اِقرار کے بغیر معتبر نہیں (یعنی دْنیوی اِعتبار سے) اور اسی کا ایک مختصر سا کلمہ متکلم کو جنت یا جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔

جسمِ انسانی کے اعضائے رئیسہ میں سے دِل ودِماغ جو پورے جسم پر کنٹرول رکھتے ہیں اور جن پر اِنسان کے اچھے یا بْرے ہونے کا مدار ہے، ان کی اچھائی یا بْرائی بھی اسی زبان سے معلوم ہوتی ہے، یہ اچھے تو زبان بھی اچھی، یہ خراب تو زبان بھی خراب، چنانچہ مومن وکافر، مخلص وکینہ پروَر اور دوست ودشمن کی زبان میں فرق اسی وجہ سے ہے، نیز انسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات اس کے معیارِ عقلی واخلاقی اور شرافت ودنائت کا پتا بھی دیتی ہے، گویا زبان ایک کسوٹی ہے، جس سے انسان پرکھا اور سمجھا جاتا ہے۔

غرضیکہ زبان چونکہ ایک عظیم نعمتِ خداوندی ہے، اور قاعدہ ہے کہ تمام نعمتوں کو اسی طرح اِستعمال کرنا ضروری ہے جس طرح اِستعمال کرنے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے۔ ورنہ نعمت کا غلط اِستعمال، نعمت کی ناقدری اور ناشکری کے زْمرے میں آتا ہے جو عذابِ شدید کا موجب ہے۔ اسی طرح زبان کے علاوہ جسم کے باقی تمام اعضاء سے بھی وہ کام لیں جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ٔ”بے شک کان، آنکھ اور دِل ان سب کے بارے میں پوچھا جائے گا۔”(بنی اسرائیل:٦٣)
اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارا ایک ایک بول محفوظ ہے، اور روزِ قیامت ان سب کا حساب دینا پڑے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اور وہ (اِنسان) کوئی بات (زبان سے) نہیں نکالتا مگر اس کے پاس (لکھنے کو) ایک نگہبان تیار بیٹا ہے۔”(ق:٨١)

Hell

Hell

ہم بہت سی باتیں بے سوچے سمجھے کہہ جاتے ہیں، اور ہمیں خیال تک نہیں ہوتا کہ یہ کلمہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے؟ ایک مختصر سا کلمہ جنت پہنچا دیتا ہے، اور بعض دفعہ وہی مختصر کلمہ جہنم کی راہ دِکھا دیتا ہے۔ زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح اِستعمال یہ ہے کہ جو لفظ بھی زبان سے نکالیں، اس کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے خوب سوچ سمجھ کر نکالیں، بات کہیں تو سچی اور اچھی کہیں، ورنہ دینی اور دْنیوی لحاظ سے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: ”ان کے اکثر مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہے، مگر یہ کہ جو حکم دے خیرات کا یا اچھی بات کا، یا لوگوں کے درمیان اِصلاح کرانے کا۔”(النسائ:٤١١)

اسی طرح حضور اکرمۖ کا ارشاد ہے: ”جو اللہ اور روزِ آخرت پر اِیمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ بات کہے تو اچھی کہے، ورنہ خاموش رہے۔” (بخاری کتاب الادب ص:٦٠٩)
بسیارگوئی بڑے بڑے فتنوں اور فساد کا ذریعہ بنتی ہے، اور ان کا خمیازہ بعض اوقات دْنیا میں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔اکابر فرماتے ہیں کہ بات کہنے کی چار قسمیں ہیں:
١: جس میں سراسر نقصان ہو۔ ٢: جس میں نفع ونقصان دونوں ہوں۔ ٣: جس میں نہ نفع ہو نہ نقصان۔ لغویات وفضولیات وغیرہ۔ ٤: جس میں سراسر نفع ہو۔

گویا گفتگو اور باتوں میں تین چوتھائی نہ کرنے کے قابل ہیں، یہ وہی مفہوم ہے جو سورہ النسا کی آیت نمبر ٤١١ سے سمجھ میں آتا ہے کہ صرف وہی بات کرنی چاہئے جس میں کوئی فائدہ بھی ہو۔ ایسی بات جس میں نہ دْنیوی منفعت ہو، نہ اْخروی تو وہ اس لئے پسندیدہ نہیں کہ وہ مسلمان کو اِسلام کے حسن سے محروم کر دیتی ہے، چنانچہ اسی کے بارے میں حضور اکرم کا ا ارشاد ہے:
انسان کے اسلام کے حسن میں سے یہ ہے کہ وہ بے فائدہ کاموں کو چھوڑ دے۔”(ترمذی ج:٢ ص:٥٨)

زبان کو شرور وآفات سے بچانے کے لئے خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں، اور یہ عقل مندی کی نشانی بھی ہے، کیونکہ عقل مند سوچتا زیادہ اور بولتا کم ہے۔ جو جتنا بولتا ہے، غلطیاں بھی اتنی ہی زیادہ کرتا ہے، اور جو سوچتا زیادہ، بولتا کم ہے، وہ غلطیاں بھی کم کرتا ہے۔ حضور اکرم ا ۖکا ارشاد ہے: (مشکوٰة باب حفظ اللسان ، ص:٥٣٤)۔ یعنی جس نے خاموشی اِختیار کی اس نے نجات پائی۔”

چنانچہ مشہور مقولہ بھی ہے کہ ”ایک چپ ،سو سکھ”۔ ان تمام باتوں سے خاموشی کی فضیلت وبہتری ثابت ہوتی ہے، مگر یہ بہتری فضول و نقصان دہ باتوں کے مقابلے میں ہے، ورنہ تو اچھی بات کہنا خاموشی سے بھی بہتر ہے۔ حضورِ اکرم ۖنے ارشاد فرمایا کہ: ‘اچھی بات کہنا صدقہ بھی ہے۔”
اللہ تعالیٰ ہمیں ان گناہوں سے بچائے اور زبان کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔

Amjad Quraishi

Amjad Quraishi

تحریر: امجد قریشی