آخری فیصلہ

Women Marriage

Women Marriage

تحریر : شاہد شکیل
زندگی، موت، پیار و محبت، کمزوری، طاقت، ملاپ، جدائی، احساس، اعتباراور فیوچر کے علاوہ دنیا کے ہر موضوع پر تقریباً سبھی زبانوں میں ہر خاص و عام کے علاوہ مہان کلا کاروں، ادیبوں، کہانی نویسوں، افسانہ نگاروں اور لکھاریوں نے ہر معمولی و غیرمعمولی شے کو سبجیکٹ بنا کر اپنی سوچ و فکر سے مختلف انداز میں تحریر کیا ہے ،کسی کی سوچ پر پابندی نہیں لیکن میں اس بات کے شدید خلاف ہوں کہ بغیر مطالعہ کئے یا ثبوت نہ ہونے پر کسی پر کیچڑ اچھالا جائے یا سنی سنائی بات کر توڑ موڑ کر اصل بات کا کچومر بنادیا جائے اور محض چند روپوں یا جھوٹی شہرت کے لئے کسی بے گناہ کو کو گناہ گار ٹھہرایا جائے ،زبان اور الفاظ بہت قیمتی ہوتے ہیں انہیں احتیاط سے استعمال کرنے میں ہی سب کا بھلا ہوتا ہے۔

آج سہہ پہر میری ملاقات ترکی ہمسایہ سے ہوئی جو جنرل سٹور کا مالک ہے ،حال احوال پوچھنے کے بعد کہنے لگا میں کبھی کبھی دکان کے سامنے کھڑا ہو کر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتا ہوں تو تقریباً ہر کار میں مجھے عورت اکیلی نظر آتی ہے سوچتا ہوں اتنی خوبصورت عورت اتنی مہنگی کار اور اکیلی یہ کیا ماجرہ ہے میں نے کہا کوئی نئی بات کرو یا بات مکمل کرو تو کہنے لگا ،آبی۔ترکی زبان میں بھائی یا بڑے بھائی کو آبی کہتے ہیں،آج کل عورتیں کچھ زیادہ ہی ماڈرن اور فیشن ایبل ہو گئی ہیں کام کرتی ہیں پیسہ کماتی ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزارتی ہیں اوپر سے جرمنی خواتین کے حقوق پر کچھ زیادہ توجہ دیتا ہے اور نت نئے قوانین بنا رہا ہے کہ عورت کچھ بھی کرے اسکا حق ہے اور مرد سب کچھ اچھے سے اچھا کرے وہ برا انسان ہے اور اس قسم کے قوانین سے مردوں کی دل آزاری ہوتی اور شخصیت متاثر ہوتی ہے ایک معمولی عورت ان قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ملکہ سمجھتی ہے ،میں نے کہا چھوڑو سب کچھ ہمارے سامنے ہے اس پر کیا ڈسکس کریں سناؤ بال بچہ کیسے ہیں تو کہنے لگا میری والی نے شادی کر لی ہے میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔

کہنے لگا اچھا کیا جو شادی کر لی میں پہلے سے جانتا تھا کہ اسکے کسی کے ساتھ تعلقات ہیں میں خاموش رہتا کہ تین بچوں کی ماں ہے کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر پشیمان ہو گی لیکن ایسا نہ ہوا وہ کئی عرصے سے حیلوں بہانوں سے مجھے تنگ کرتی مجھے مشتعل کرتی تاکہ اس پر ہاتھ اٹھاؤں اور آخر وہی ہوا مجھ سے علیحدہ ہو گئی ایک سال علیحدہ رہنے کے بعد اس نے طلاق کے لئے ایپلائی کر دیا اور جیسے ہی مدت پوری ہوئی دوسری شادی کر لی میں سمجھتا ہوں اچھا کیا جو شادی کر لی ورنہ ہر روز نیا دوست بناتی اور بچوں پر برا اثر پڑتا ،میں نے اپنی پندرہ سالہ بیٹی کو کہہ دیا ہے کہ مرتے مر جانا کبھی شادی نہ کرنا یہ سن کر میری سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔

کہنے لگا مردوں کو خاموشی سے لات مارنا آج کل فیشن بن چکا ہے سب عورتیں جانتی ہیں کہ حکومت انہیں مال پانی خرچہ دے رہی ہے بچے بھی اچھا پل بڑھ رہے ہیں کوئی فکر فاقہ نہیں سال میں دو بار دو ہفتوں کی چھٹیاں بھی جہاں جی چاہے منائی جاتی ہیں کسی مرد کی ضرورت نہیں کیونکہ مرد تو جب چاہیں حاصل کیا جا سکتا ہے اسلئے شادی اور ازدواجی زندگی پر لعنت بھیجو اور لا ئف انجوائے کرو، میں نے کہا ہمارے ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا تو کہنے لگا آپ کب سے یہاں ہیں میں نے بتایا کہ سینتیس برس ہو گئے ہیں تو کہنے لگا میرے والدین میرے ساتھ ہی رہتے ہیں میں سال میں دوتین ہفتوں کیلئے ترکی جاتا ہوں سب کچھ پہلے سے بک ہوتا ہے انجوائے کرتا ہوں اور واپس آجاتا ہوں مجھے کیا خبر کہ ترکی میں کیا ہوتا ہے کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں کیا ہوتا ہے تو میں نے کہا سب کچھ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ مذاہب، سیاست اور کلچر کے بارے میں زیادہ تر خبریں ہوتی ہیں تو کہنے لگا یہ سب کچھ نہیں ہے بلکہ بہت کچھ چھپایا جاتا ہے۔

یورپ میں سب کچھ اوپن ہے اور دوسری بات یہاں ایک مصروف زندگی ہے کوئی کسی پر نہ نظر رکھتا ہے نہ توجہ دیتا ہے سب اپنے اپنے کام دھندوں میں مگن ہیں اسکے علاوہ یہاں کی عورتیں مردوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں انکی کمزوریاں تلاش کرتی ہیں انکی زندگی کا مطالعہ کرتی ہیں وہ سب کچھ جاننے کے بعد انہیں ہر طریقے سے استعمال کرتی ہیں جب تک انہیں منزل نہیں مل جاتی اور منزل پا لینے کے بعد ایساٹھڈا مارتی ہیں کہ وہ ساری زندگی یاد کرتے ہیں، عورت کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے یہ کہہ کر وہ اپنی دوکان میں چلا گیا۔مغربی ممالک میں خواتین کو زیادہ آزادی اور حقوق دینے سے مردوں کا جینا دوبھر ہو چکا ہے یہ بات نہیں کہ تمام مرد فرشتے ہیں اور خواتین بد کردار بلکہ حالات اور موقع پرستی نے تقریباً ہر انسان کو اتنی ڈھیل اور آزادی دے دی ہے کہ میلینیم کے بعد دنیا کا ہر انسان تبدیل ہو چکا ہے کہا جاتا تھا یہ صدی آخری ہو گی اور دنیا ختم ہو جائے گی۔

ایسا نہیں ہوا دنیا تو ختم نہیں ہوئی دنیا والوں نے ایک دوسرے کو ختم کرنے کی ٹھان لی ہے۔گزشتہ دنوں ایک جرمن میگزین میں مردوں کو خبردار کیا گیا انکی ازدواجی زندگی میں یعنی اپنی شریک حیات میں اگر چند تبدیلیاں رونما ہوتے دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ میڈم اب آپ سے اکتا گئی ہے اور کسی نئے افیئر ،ایڈونچر وغیرہ کی تلاش میں ہے تاکہ اپنی بچی کھچی زندگی ایک نئے سرے سے شروع کر سکے ، میگزین میں بتایا گیا کہ عام حالات میں خواتین اچانک علیحدہ نہیں ہوتیں بلکہ کئی وجوہات ہوتی ہیں اور مرد حضرات بے خبر ہوتے ہیں ،خواتین کی وجوہات پر کتاب لکھی جا سکتی ہے،مندرجہ ذیل اور عام سی وجوہات کچھ اس قسم کی ہوتی ہیں مثلاً اگر بیوی یہ کہے کہ کموڈ کا ڈھکن بند کیوں نہیں سارے گھر میں بد بو پھیل گئی ہے ،اپنے موزے اور بنیان سنبھال کر رکھا کرو،کھانا کھانے کا طریقہ سیکھو منہ سے ایسی آوازیں آرہی ہیں جیسے کوئی جانور گھا س کھا رہا ہے،ایسی باتیں کم اور طعنے زیادہ سمجھے جاتے ہیں کوئی مرد ایسی بکواس برداشت نہیں کر سکتا سوچتا ہے آج سے پہلے تو کبھی کوئی شکایت نہ تھی اب کیا ہوا ہے۔

ایک ایک پیسے کا حساب کتاب کرنے پر بھی دال میں کچھ کالا لگتا ہے مثلاً جب یہ سوال کیا جائے کہ ڈائننگ ٹیبل کس نے خریدی تھی،آج اس ٹھیکرے ٹی وی کی قیمت کیا ہو سکتی ہے، یا کئی فریم شدہ تصاویر رفتہ رفتہ گھر کی دیواروں سے غائب ہونا شروع ہو جائیں اور بند ڈبوں میں اپنے والدین کے گھر پہنچا دی جائیں یا پرانے البم ڈھونڈنے پر بھی دستیا ب نہ ہو سکیں جن میں شادی کی اور چھٹیوں کی یاد گار تصاویر موجود ہوںتو انسان سوچتا ہے آخر اس گھر میں ہو کیا رہا ہے، خاتون اپنا ہئیر سٹائل اور بالوں کا رنگ تبدیل کرے ،نیا پرفیوم خریدے اور ڈریس میں فیشن کی ملاوٹ ہو تو جدائی کا الارم دماغ میں بجنے لگتا ہے کیونکہ ایسے حالات میں میڈم یہی گنگتاتی ہے کہ کوئی مل گیا مل ہی گیا، جسمانی نشو و نما اور ساخت پر توجہ دے ہفتے میں دو بار فٹنس سٹوڈیو کا رخ کرے تاکہ سمارٹ نظر آ سکے،اپنے لائف پارٹنر سے فیوچر کی کوئی منصوبہ بندی نہ کرے کہ اس سال کہاں چھٹیاں منانے جائیں گے یا فلاں فلاں تاریخ کو سپر سٹار کا کنسرٹ ہو رہا یا کوئی سٹیج شو دیکھنا ہے ،دادی نانی سے ملنے دوسرے شہر جانا ہے تو بندہ مغز ماری کرتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

اپنے جذبات کا اظہار نہ کرے ،اپنے کسی بھی درپیش مسئلے پر بات چیت نہ کرے،اور سب سے بڑھ کر یعنی خاص طور پر یہ کہے کہ دیر سے گھر واپس آؤں گی اوور ٹائم کرنا ہے یا چیف کے ساتھ کسی دوسرے شہر میٹنگ میں جانا ہے ، والدین سے ملنے جانا ہے وغیرہ تو ماتھے پر لکیریں آتی ہیں،اپنے راز چھپانا مثلاً اپنا موبائل ہاتھ میں رکھنا یا بیگ میں ،گھنٹی کی بجائے وائبریشن پر رکھنا ، کسی بات پر اعتبار نہ کرنا اور ہر وقت اپنی مرضی کرنا کہ یہ میرا فیصلہ ہے میں اس پر قائم رہوں گی قربت سے گریز کرنا پیار محبت سے بات کرنے کی بجائے ہر مثبت کو منفی سمجھنا بد اخلاقی اور بدتمیزی سے پیش آنا مجھے نیند آرہی ہے میں تھک گئی ہوں اور تمھیں رومانی دورہ چڑھ گیا ہے ان تمام علامات کو دیکھتے ہوئے ایک شریف اور فرمانبردار شوہر کو فوری سمجھ لینا چاہئے کہ دال میں کچھ کالا نہیں ساری دال ہی۔اور اب اس کا اس گھر سے دانہ پانی اٹھ گیا ہے وہ اس گھر سے رفو چکر ہو جائے یا پھر اپنے منہ پر پلاسٹر سڑپ چسپاں کرے ، کانوں میں روئی ٹھونسے اور سیاہ چشمہ لگا کر اندھوں کی طرح انتظار کرے کہ میڈم درست راستے پر آئے گی یا پھر کسی دن یہ کہے کہ گڈ بائے مائی ایکس مین اور دروازہ کھول کر ہمیشہ کیلئے آپ کی زندگی سے فرار ہو جائے ۔عورت تو فیصلہ کر چکی ہوتی ہے آخری فیصلہ مرد نے کرنا ہوتا ہے۔

Shahid Shakil

Shahid Shakil

تحریر : شاہد شکیل