قانون کی پکڑ سے دور اور احتساب سے بالا تر مخلوق

Bureaucracy

Bureaucracy

تحریر : ملک محمد سلمان
مہنگائی، غربت، کرپشن اور لاقانونیت سمیت ہر مسئلے کے ذمہ داری سیاستدانوں پر ڈالنے کی ریت قائم ہوچکی ہے، بیوروکریسی کی تمام خطائیں عاقبت نا اندیش سیاست دانوں کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔حکمران بدلتے رہتے ہیں اور بیوروکریسی وہیں موجود رہتی ہے اور سارا الزام سیاست دان کے حصہ میں آجاتا ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سیاسی رہنما اقتدار کے لالچ میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتے ہیں۔ سیاست دانوں کے باہمی تنازعات کی وجہ سے بیوروکریسی انہیں اپنے مقاصد کیلئے نہ صرف استعمال کرتی آئی ہے بلکہ تمام تر ناکردہ گناہوں کیلئے بھی سیاستدانوں کو ہی مورود الزام ٹھہرانے میں کامیاب رہی۔سیاست دان اگر صحیح معنوں میں مخلص ہو جائیں اور عوام کی خدمت کے جذبے سے کام کریں تو اِس طرح ان کا اپنا ضمیر بھی مطمئن ہوگا اور کوئی بھی انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال نہیں کر سکے گا۔

مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوری حکومتوں کا ، ہر دو صورت میں ان افسران کے اختیارات لا محدود ہی رہتے ہیں۔اسی لئے اللہ کی ذات کے بعد پاکستان کے لوگوں کا مقدر اسی بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور بنیادی طور پر صدا زمینی بادشاہ یہی بیوروکریٹ ہوتے ہیں۔تھانہ کلچر کی خرابی کی تمام تر ذمہ داری تھانے دار اور اہلکاروں پر ڈالی جاتی ہے جبکہ حقیقت میں پولیس کے لیے جو فنڈز حکومت کی طرف سے ملتے ہیں، اوپر والے بڑے افسر ہڑپ کر جاتے ہیں۔تھانوں کو افرادی قوت اور گاڑیوں کی سخت کمی کا سامنا ہے لیکن بعض پی ایس پی افسران نے چار چار سرکاری گاڑیوں اور جوانوں کی بڑی تعداد کو اپنے عزیزواقارب کی خدمت پر معمور کیا ہوتا ہے ۔ ایڈمنسٹریٹو گروپ کی بات کریں تو سارے تباہ حال اداروں کے پیچھے کسی نہ کسی بیوروکریٹ کی قابلیت (لوٹ مار)ہی ہوتی ہے۔آڈٹ اور اکاؤنٹس گروپ کے کارنامے تو اتنے زیادہ ہیں کہ ضبطِ تحریر میں لانا مشکل کام ہے۔ فارن سروس کے افسران نسبتاً اچھی شہرت رکھتے ہیں مگر یہاں بھی کچھ افسران کا صرف ایک ہی ایجنڈا نظر آتا ہے کہ پورے خاندان کو یورپین ممالک کی نیشنیلٹی دلوانی ہے۔ ایف بی آر میں کچھ” ہنر مند افسران”ٹیکس چوری کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے نظر آتے ہیں ۔کم و بیش یہی حال ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کا ہے۔

پراپرٹی ٹیکس، جس کی مد میں اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جانے چاہیئں، لوگوں کو اضافی ٹیکس کا جعلی نوٹس بھیج کر بلیک میل کرنا اور پھر ان سے رشوت لے کر ان کا اصل ٹیکس بھی گول کر دینا تقریباً ایک روایت بن چکی ہے۔نیب کو ایک بہت اچھی شہرت والے چیئرمین کا لیبل لگا کر ایمان داری کا سرٹیفیکیٹ دے دیا جاتا ہے جبکہ نیب کے کرپٹ افسران اربوں روپے چوری کرنے والوں سے کروڑوں لیکر ”کلین چٹ ”بانٹتے پھرتے ہیں۔پی آئی اے اپنی تاریخ کے بد ترین خسارے اور بد انتظامی کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑنے کے حوالے سے نمایاں ہے لیکن افسران اپنے ذاتی طیارے خریدنے کی پوزیشن میں ہیں۔

جس ملک میں اکژیت آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرری ہو وہاں بااختیار تو کْجا، ایک ابتدائی گریڈ سترہ کے اسسٹنٹ کمشنر کے بیوی بچے بھی وسیع و عریض بنگلوں میں پْرتعیش زندگی گزارتے ہیں، مہنگی ترین لگڑری گاڑیوں میں فراٹے بھرتے ہیں ۔ سرکاری افسر ملکِ خداداد کے وسائل کو جس بے دردی سے لوٹ رہے ہیں اس کا تصور بھی میرے اور آپ کے بس کی بات نہیں۔بیوروکریسی کے اصل وارے نیارے اس وقت ہوتے ہیں، جب سرکاری اداروں کے متوازی کمپنیاں اور اتھارٹیاں بنوائی جاتی ہیں ۔ جن کے ایم ڈی ،ڈی جی اور ڈائریکٹر بن کرلاکھوں روپے ماہانہ بٹور تے ہیں۔جن خودمختار سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کروڑوں روپے وصول کر رہے ہیں وہ اربوں کے نقصان میں چل رہے ہیں۔حکومت کی طرف سے عوام کو رلیف دینے کیلئے بنائی گئی کمپنیاںبند ہو گئی ہیں یا مالی طور پر برے حال میں ہیں مگر ان دیہاڑی دار بیوروکریٹس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی بجائے پیٹی بھائی بیوروکریٹ ”باہمی مفاد خواص ”کے پیش نظر بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بیوروکریسی کو چاہئے اپنی کمیونٹی کے افسران کی ہر جائز و ناجائز معاملے میں حمایت کی بجائے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو پہچانیں جنہوں نے سرکاری طاقت کے بے جا استعمال ،اپنی حدود اور اختیارات سے تجاوزکرکے نہ صرف سرکاری وسائل کو”مال مفت دل بے رحم” کی طرح لوٹا ہے بلکہ بیوروکریسی کی مجموعی ساکھ کو بھی بری طرح خراب کیا ہے۔اگرچہ لوٹ مار میں ملوث مذکورہ افسران کی تعداد بہت کم ہے لیکن اس کرپٹ اقلیت نے فرض شناس اکثریت کا امیج بھی دائو پر لگا دیا ہے۔

بیوروکریسی میں اکثریت قابل اور خوش اخلاق افسران کی ہے جو اتوار ،عیدین اور دیگرتعطیلات میں بھی انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے نظر آتے ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن ، ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشن پنجاب شاہد اقبال،ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدابخش ،ڈی آئی جی پنجاب ہائی وے پٹرول یوسف ملک ،ڈائریکٹرنیشنل سکول آف پبلک پالیسی سعد ایس خان،ریجنل ڈائریکٹر انٹی کرپشن سرگودھا عاصم رضا ر، ریجنل ڈائریکٹر انٹی کرپشن ساہیوال ملک امتیاز احمد،سیکرٹری پلاننگ گلگت بلتستان بابر امان بابر،فخرچیمہ شبیر بٹ ،مہرعباس ہرل،ایس پی انوش مسعود ایس پی عائشہ بٹ ،زبیدہ فاروق،سعدیہ طارق ،نرجس علی خان،نیلم افضال ،صائمہ سلیم سمیت بیوروکریسی میں بہت سارے نام ایسے ہیں جنہوں نے کرسی اور اختیارات کو صرف عوام کی فلاح وبہبوداور پاکستان کی تعمیرورترقی کیلئے استعمال کیا،اپنی فرض شناسی ، بہترین انتظامی صلاحیتوں اور خوش اخلاقی کے باعث معاشرے میں انتہائی قدرومنزلت کے حامل ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آنے والے حکمران نہ صرف اپنا قبلہ درست کریں بلکہ وطن عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے ہر کرپٹ فرد کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کو ممکن بنائیںاور اپنے وفادار سول سرونٹس کی بجائے ایماندار ،فرض شناس اور خوش اخلاق افسران کی اہم عہدوں پرتقرری کی جائے تا کہ بیوروکریسی کا کھویا ہوا وقار بحال ہوسکے۔آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے عوام کی امیدوں کا مرکز عدلیہ ہے اور بطور منصف انصاف کا ترازواس بات کا متقاضی ہے کہ وطن عزیز پاکستان کو لٹیروں کے نرغے سے نکالنے ، ناانصافی اور کرپشن کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے خود کو قانون کی پکڑ سے دور اور احتساب سے بالا تر مخلوق سمجھنے والی بیوروکریسی کا بھی احتساب کیا جائے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو سکے۔

Malik Salman

Malik Salman

تحریر : ملک محمد سلمان