قانون سب کے لئے

Pakistan Constitution

Pakistan Constitution

تحریر : رانا اعجاز حسین
آئین پاکستان موجود ہونے کے باوجود ،ریاست پاکستان میں قانون کا نفاذ سب کے لئے برابر نہیں، یہاں امراء قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں ، سمجھ سے بالاتر ہے کہ ملک کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والی بڑی بڑی مچھلیاں قانون کے آہنی شکنجے سے کیسے بچ نکلتی ہیں؟ یہ بھتہ مافیا، یہ ٹیکس چور، یہ قبضہ مافیا، یہ کرپٹ افرادآخر کب قانون کی گرفت میں آئیں گے، اور فوج کو کب تک ان کا تعاقب کرنا پڑیگا۔ جبکہ دستور پاکستان میں مساوی انصاف کی فراہمی کی ضمانت دی گئی ہے،آرٹیکل 5 کے تحت ریاست سے وفاداری ہر شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے۔وہ جہاں بھی رہے آئین اور قانون کی اطاعت کا پابند ہے۔ آرٹیکل 52 واضع کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔آرٹیکل 73ڈی کے مطابق عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آرٹیکل 83اے بلا تفریق جنس، رنگ و نسل عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے دولت اور پیداواری ذرائع کے چند ہاتھوں میں ارتکاز اور انکی عوامی مفاد کیلئے نقصان دہ غیر منصفانہ تقسیم سے منع کرتا ہے۔

آرٹیکل 83 بی کے مطابق ریاست دستیاب وسائل میں رہ کر ہر شہری کو روزی روٹی اور مناسب تفریح کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی پابند ہے۔آرٹیکل 83ڈی کے مطابق ریاست شہریوں کو بلا تفریق روٹی کپڑا اور مکان، تعلیم، طبی سہولیات جیسی بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی پابند ہے۔اگر قیام پاکستان کے مقاصد پر غور کیا جائے تو دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا خطاب ہی ہمارے لئے کافی ہے۔انہوں نے ہمیشہ اقرباء پروری ، سفارش اور رشوت جیسی لعنتوں کا قلع قمع کرنے اور بلا تفریق انصاف کی ضرورت پر زور دیا۔

Muhmmad PBUH

Muhmmad PBUH

مخذوم قبیلہ کی فاطمہ بنت الاسود نے جب چوری کا ارتکاب کیا تو اسوقت چور کی سزا ہاتھ کاٹنا مقررتھی۔ قریش کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے کون کہے کہ اس عورت سے نرمی برتی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے نسبت کی بنا ء پر اسامہ بن زید کو اس مقصد کیلئے تیار کر کے مخذومی عورت کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کر دیا گیا مگر اسامہ نے جب اس کی سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزاء میں سفارش کر رہے ہو ؟اسامہ نے معذرت کر لی۔اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثناء کے بعد لوگوں سے جو خطاب فرمایا اس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔ ” اے لوگو! تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑاآدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی شخص اسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی چوری کرتی تو میں اسکا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا،،۔ حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں ایک عام آدمی ان سے خطبے کے دوران انکے کرتے کے بار ے میں سوال کرتا ہے اور وہ خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے اس کی وضاحت پیش کر نے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

انکے دور میں گورنر وں کو قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں سزا بھگتنا پڑی۔ حضرت علی خلیفہ کی حیثیت سے بیت المال کے حساب کتاب میںمشغول ہیں اس دوران طلحہ اور زبیر کے آنے پر چراغ اسلئے بجھا دیتے ہیں کہ اس میں بیت المال کا تیل جل رہا ہے۔آپ کا زیادہ تر زور قیام انصاف پر نظرآتا ہے۔ حضرت امام حسین نے کربلا کے میدان میں تاریخ کی بے مثال قربانی دی مگر ایک فاسق فاجر اور ظالم حکمران کی بیت نہ کی۔ لیکن صد افسوس پاکستان میں بڑے مگرمچھ قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اگر یہ مگر مچھ قانون سے بالا رہتے ہیں توسسٹم کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کے مقدمات ہوتے ہیںاور پھر کئی کئی سال عدالتی کارروائی کے علاوہ میڈیا ٹرائل بھی ہوتا رہتا ہے۔

تفتیش اور پراسیکیوشن پر خطیر رقوم قومی خزانے سے صرف ہوتی ہے، مگر یہ مگرمچھ مکھن سے بال کی طرح بچ نکلتے ہیں۔ جہاں تک عدالت کا تعلق ہے جب ثبوت نہیں ہوگا تو عدالت کسی کو سزا نہیں دے سکتی۔ سمجھ سے بالاتر یہ ہے کہ اسقدر کمزور مقدمات پیش کر کے عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع کرنے ، کارروائی پر خطیر رقوم ضائع کرنے اور قوم کو سالہا سال تک سسپنس میں مبتلا رکھنے میں کیا مصلحت ہوتی ہے۔ اگر ٹھوس ثبوت کے باوجود محض تیکنیکی بنیادوں پر قومی مجرم چھوٹ جائیںتو یہ لمحہ فکریہ ہے اور ایسی صورت میں ضابطوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ قطع نظر اسکے کہ ملک ایک دہائی سے زائد عرصہ سے منظم دہشتگردی کیخلاف حالت جنگ میں ہے اور یہ جنگ بلا شبہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ نوشتہ دیواریہی ہے کہ ہمیں اپنی صفوںمیں پائی جانے والی کالی بھیڑوں اور غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنی راہ لینے والے ناقابل احتساب مگرمچھوں کی خبر لینا ہوگی۔ ملک سے دہشت گردی کی طرح ، بلا امتیاز قانون کی بالا دستی، کرپشن ، بدعنوانی، اقرباء پروری اور شفارش کا خاتمہ بھی ضروری ہے، ان لعنتوں کا قلع قمع کئے بغیر خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

Rana Aijaz

Rana Aijaz

تحریر : رانا اعجاز حسین
ای میل:ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033