قائد کا گھر تباہ کرنے والے کون؟

Pakistan

Pakistan

اسلامی ممالک کی فہرست میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو نظریہ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ اس کے قیام میں مسلمانوں کو لاکھوں قربانیاں دینا پڑیں۔ پاکستان کے حصول کا مقصد اسلامی اقدار کے سایے میں زندگی بسر کرنا تھا مگر بد قسمتی سے یہ ملک بڑی منصوبہ بندی اور سوچی سمجھی سازش کے ساتھ اپنے اعلیٰ اہداف سے ہٹاکر قتل و غارت اور انسانیت سوز مظالم کی آماجگاہ میں تبدیل کردیا گیا۔ آج ملک کے اندر بد عنوانی اور لا قانونیت کا راج ہے۔ خوف و ہراس کی ایک عجیب فضا پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ گزشتہ دنوں حضرت قائداعظم کی رہائشگاہ کو تباہ کردیا گیا، اور ہمارے حکمران سوتے رہے، ہماری ایجنسیز اتنے بڑے سانحے سے بے خبر کیسے رہیں، یہ سب کچھ سمجھ سے بالا تر ہے، اس قائد کے گھر کو بموں سے نیست و نابود کر دیا گیا، جس قائد نے ہمیں الگ پہچان دی۔

ہمیں آزادی کا مقصد بتایا مگر نا جانے وہ کون سی نادیدہ قوتیں ہیں، جنہیں ہماری آزادی ج بھی کھٹک رہی ہے، وہ قوتیں ہم پر پے درپے وار کررہی ہیں اور ہم برسوں کی طرح آج بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ہمیں بحیثیت قوم شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے کہ جن کی قربانیوں سے یہ ملک وجود میں آیا آج وہی اس ملک کے اندر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان کا خون ہر چیز سے سستا ہے آج نہ ان کی جان محفوظ ہے نہ عزت ان کا وجود اس ملک کے اندر غیر محفوظ ہے۔ نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھ میں اس ملک کی تقدیر تھما دی گئی ہے۔ ایک طرف مافیائی نظام اپنی درندگی کے خنجرسے اس قوم کو زخم لگا رہا ہے تو دوسری طرف نام نہاد اور مفاد پرست این جی اوز بھٹکی ہوئی لاچار قوم کے ذہنوں میں اپنی شاطر سوچ پیوست کر رہی ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی، قتل و غارت عام ہے یہاں انسانیت کشی کبھی ثواب کا ذریعہ سمجھی گئی تو کبھی جھوٹی انا کی تسکین کا ذریعہ۔ دہشت گردی مذہبی طبقے کی جہالت ونادانی، حکمران طبقے کی مغرب نوازی اور امریکہ کی گھنائونی، مکارانہ سوچ کا نتیجہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے لیے ایک زرخیز میدان ہے جو دشمنان وطن کے پیسے اور امریکہ کی مکاریوں سے وجود میں آئی۔ اس طرح قتل و غارت اس ملک کے انسان نما درندوں کے لیے ذریعہ معاش بنی ہوئی ہے۔ قتل و غارت اس قدر عام ہے کہ اگر کہیں پندرہ بیس لاشیں گر جائیں تو میڈیا اس کو معمولی خبر سمجھ کے شائع نہیں کرتا اور عوام اس کو خاطر میں نہیں لاتے۔

Terrorism

Terrorism

لہٰذا اس طرح کی صورت حال میں ایک پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ حالات کا درست جائزہ لیکر اس مایوسی، نفسا نفسی کے ماحول میں زندگی گزارنے کے آداب سے آگاہ ہو اور وقت کی آواز پر لبیک کہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مسائل کا حل کیا ہے ؟ اس وقت قوم کے سامنے ہجرت کے نام پر فرار، ذاتی مفادات کے حصول و بقاء کیلئے ملکی مفاد کی غلط تفسیر کا سہارا، اقدار کو اوزار کے طور پر استعمال کرنے، عوام کو پست، بھکاری، چپاتی پرست، بیرونی امداد کا دلدادہ، آرام طلبی کوراہ حل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بدعنوان اور نااہل حکمرانوں کی ایک نفسیاتی خامی یہ ہوتی ہے وہ ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کوئی ان کی پگڑی نہ اچھال دے، کہیں ان کی شان میں کمی نہ ہو، لہذا اپنے لئے ایک جھوٹی فضاء قائم کرتے ہیں، طاقت اور اسلحہ کے زور پر ہراس آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں جوان کے خلاف اٹھے۔

یہ ہراس شخص سے ہراساں رہتے ہیں جو اپنے وجود کا اظہار کھل کر کرے، اگر ہم ایک قوم بن کر ان بھیڑیوں، مگرمچھوں کا مقابلہ کریں، تویہ جرائم پیشہ قاتل بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ سکتے ہیں۔ اور ذلت و رسوائی ان کا مقدربن سکتی ہے آج ہمیں اپنے وجود کا اظہاراس طرح سے کرنا ہے کہ اگر دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھے تو اسے اس کی قیمت چکانا پڑے۔ آج درحقیقت ہم دشمن کے ہاتھوں نہیں بلکہ حالات کے تقاضوں پرکان نہ دھرنے کی وجہ سے رسواء ہیں جو قومیں حالات کے تقاضے پورے نہ کریں توبے رحم اور سفاک ان پرمسلط ہوجاتے ہیں حالات کے تقاضوں کوسمجھنے کیلئے بصیرت کی ضرورت ہے اس لئے لوگوں کے اندر شعور و آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ مافیائی نظام کو سمجھیں اور اس سے لا تعلقی کا اظہار کریں۔ ہم بحیثیت پاکستانی شہری اپنے وجود کو محسوس کروائیں، ہماری ناکامی کی ایک وجہ ہمارا جرم اور مجرم کا تعاقب نہ کرنا ہے پورے ملک کا یہ حال ہے کہ کہیں بھی جرم ہو کوئی تعاقب کرنے والا نہیں۔

Allha

Allha

اگر کوئی مجرم اپنے ہاتھ خون ناحق سے رنگ بھی لیتا ہے تواس کے خلاف ایف آئی آر تک نہیں کاٹی جاتی۔ لہذا قاتل کو کوئی قیمت ادا نہیں کرنا پڑتی حتیٰ کہ اسے ایک دفعہ بھی تھانے نہیں جانا پڑتا۔ آج پاکستان میں مختلف طبقات کے اندر خود اعتمادی کا فقدان ہے لہذا اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں،ہ میں یہ کسی احمق نے باور کرا دیا ہے کہ ہمارے مسائل کوئی باہرسے حل کریگا۔ آج ہمیں بحیثیت قوم اپنی مشکلات کا خود حل نکالنا ہو گا، کسی دوسری قوم کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھیں کہ کوئی باہر سے مسیحا بن کر آئے گا اورہماری مشکلات کو حل کریگا۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم تمام فرائض کوچھوڑ کرہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں اور سارا کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں، اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہمارا کام ہے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر مندرجہ بالا نکات کی طرف پوری قوم توجہ دے تو انشاء اللہ پاکستان کے اوپر بدبختی کے منڈلاتے بادل چھٹ جائیں گے اور یہ قوم سکھ کا سانس لے گی۔

گزشتہ دنوں راقم کو مری سے میڈیکل کی طالبہ طوبہ عباسی نے میل کی جس میں انہوں نے ایک نہائت ہی اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروائی، وہ لکھتی ہیں کہ وہ چند روز قبل بازار میں شاپنگ کے لئے گئی اور اپنے لئے اور بھائی کے لئے شوز خریدنے کے لئے ایک دکان میں گئی تو دیکھ کر سخت حیرانی کی کیفیت میں مبتلا ہو گئی کہ جو جوتے ہم نے پسند کئے تھے وہ جوتے عادل شوز والوں کے بنائے ہوئے تھے، کیونکہ عادل نام میرے
استاد محترم کا نام تھا لہذا بہت خوش بھی ہوئی اور مجھے شاک اس وقت لگا جب جوتوں کے تلوئوں کے نیچے عادل نام لکھا ہوا تھا جوکہ پہننے کے بعد پائوں کے نیچے آتا، طوبہ عباسی مزید لکھتی ہیں کہ میرے لیے میرے استاد کا نام بہت ذیادہ قابل احترام اور محترم ہے کہ میں نے فورا وہ جوتے واپس کردئے اور جوتے خریدے بنا ہی گھر واپس آگئی۔

محترم قارئین اس ای میل کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اب اپنے کاروبار کو چمکانے کے لئے مختلف اسلامی ناموں کے ناموں پر اپنے جوتوں کا نام رکھتے ہیں اور ایک پل کے لئے بھی نہیں سوچتے کہ یہ جو نام ہم جوتوں کے رکھ رہے ہیں یہ نام پہننے والوں کے تلوئوں کے نیچے آئیں گے جس سے اسلامی ناموں کی بے حرمتی کیساتھ ساتھ ہمارے والدین کی بھی دل آزاری کا سبب بنے گی کیونکہ انہوں نے توہمارے نام بہت ہی محبت سے اسلامی نام رکھے اور ہم انہی کی دی ہوئی محبت کو پیروں تلے روند کر ان کی بے حرمتی کررہے ہیں لہذا سوچئے گا ضرور۔ بشکریہ

M A Tabassum

M A Tabassum

تحریر : ایم اے تبسم
email: matabassum81@gmail.com,
0300-4709102