زندگی کی کہانی زندگی کی زبانی قسط 5

Life

Life

تحریر : فوزیہ عفت
ابا مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر میں لیکچرار بننا چاہتا تھا انہوں نے پھر مجھے مجبور نہیں کیا یا پھر ان کے پاس پیسہ کمانے کے علاوہ کسی اور بات کے لیے وقت ہی نہ تھا کہ وہ میرا مطمع نظر سمجھتے ۔ان کے لیے بس یہی بہت تھا کہ میں پڑھ رہا ہوں ۔بہنیں بیرون ِملک شفٹ ہو گئی تھیں ،عدیل چھٹی جماعت میں تھا کچھ دنوں سے اس کی طبعیت گری گری سی رہتی تھی ۔اماں نے مجھے کہا کہ اسے ڈاکٹر کو دکھا لائوں ڈاکٹر وسیم میرے دوست احمد کے والد تھے ۔میں عدیل کو ان کے پاس لے گیا ۔انہوں نے بہت توجہ سے عدیل کا معائنہ کیا اور تفکرانہ انداز میں کچھ ٹیسٹ تجویز کیے ۔میرے پوچھنے پہ بس یہی کہا اللہ بہتر کرے گا ۔جب دو دن بعد میں رپورٹ لینے گیا تو انکشاف ہوا کہ عدیل جگر کے کینسر میں مبتلا ہے۔

اماں ابا اس کو لے کے اسلام آباد روانہ ہو گئے تاکہ اس کا اچھا علاج کیا جاسکے ۔ابا نے ایک سائیڈ بزنس بھی شروع کیا تھا ایک چھوٹی سی دوائوں کی فیکٹری،اس کے معاملات مینیجر دیکھتا تھا وہ کچھ دن کے لیے اسے میرے سپرد کر گئے مجھے کیا خاک سمجھ آتی بس چکر لگا لیتا اس روز بھی واپسی پہ سگنل پہ گاڑی رکی ہوئی تھی کہ ایک فقیر نے ونڈو کو انگلی سے بجایا ، میں نے سامنے پڑی ریزگاری دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا وہ پیسے دیکھ کر چونکا نا بچہ نا یہ سنپولیے ہیں دور رکھ انہیں وہ بڑبڑاتا ہوا دور ہٹ گیا ۔سگنل کھل گیا میں فقیر کی بات پہ ششدر بیٹھا تھا گاڑیاں ہارن پہ ہارن دے رہی تھیں میں نے گاڑی کا رخ احمد کے گھر کی طرف موڑ دی۔

لان میں ڈاکٹر صاحب ،احمد۔اسکی بہن عائشہ اور والدہ موجود تھیں میں نے سلام کیا ۔ سب نے عدیل کا حال احوال پوچھا احمد کی والدہ میرے کھانے کے لیے کچھ لانے اندر چلی گئیں باتوں باتوں میں میری پڑھائی کا تذکرہ آ نکلا میں نے انکل کو بتایا کہ میں رزلٹ کے بعد ایم۔فل اور پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں ،انہوں نے مجھے سراہا پھر وہ کلینک چلے گئے ۔میں کچھ دیر بیٹھا پھر گھر چلا آیا ۔میرا دھیان بار بار فقیر کی طرف جاتا ،عجیب قسم کے اضطراب نے ذہن کو گھیر رکھا تھا مجھے لگتا تھا میں ایک گرداب میں پھنس رہا ہوں خیالات کے طلسم کو موبائل کی بیپ نے توڑا اسکرین پر ابا کا نمبر تھا

Tears

Tears

عدیل کا کیا حال ہے میں نے بیتابی سے سوال کیا ابا کی بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے عدیل کی بیماری آخری سٹیج پہ تھی جہاں دوا ختم اور دعا شروع ہوتی ہے فون بند ہو چکا تھا میں نجانے کب تک آنسو بہاتا کرسی پہ ہی سو گیا نیند کا کیا ہے سولی پہ بھی آجاتی ہے صبح رحمو بابا کے جگانے پہ میری آنکھ کھلی ارے بیٹا تم رات بھر باہر سوتے رہے اٹھو بیٹا کمرے میں جا کر سو جائو ۔بابا آپ مجھے چائے کا کپ اور دو پین کلر لا دیں اور میرا بیگ تیار کر دیں مجھے اسلام آباد جانا ہے۔

میری آنکھوں میں عدیل کا مسکراتا چہرہ تھا بار بار آنسووں کی چادر تن جاتی مگر حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں تھی جس سے فرار ممکن نہ تھا ۔شام کی فلائٹ سے میں ہاسپٹل پہنچا تو اماں ابا مجھے اچانک دیکھ کر حیران ہو گئے اماں کا رو رو کر برا حال تھا ۔ابا کے شانے بھی جھکے ہوئے تھے ۔تسلی و تشفی کے لفظ بے معانی تھے کیا کہتے ایک دوسرے سے بس نظریں چرائے رہے

شاید موت کا لفظ اپنی سچائی میں بہت بھیانک ہے کہ ہم اپنے پیاروں کے لیے اسے اپنی زبان پر لاتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔ میں عدیل کے پاس گیا تو وہ پہچانا ہی نہ گیا بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا کیمو تھراپی کے اثرات سے اس کے گھنے بال جھڑ گئے تھے ۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور اپنا کمزوروناتواں ہاتھ میری طرف بڑھایا اس کے پپڑی زدہ ہونٹوں سے نحیف سی آواز نکلی بھیا ۔میرا دل پھٹنے لگا

Dr Fouzia Iffat

Dr Fouzia Iffat

تحریر : فوزیہ عفت