دھڑکا

Turkey Army Rebellion

Turkey Army Rebellion

تحریر: طارق حسین بٹ
چیرمین پیپلز ادبی فورم
ہر ملک کا اپنا کلچر ہوتا ہے،اپنی تہذیب اور رسم رواج ہوتے ہیں۔ملکی آئین اپنا ہوتا ہے اور اس آئین کی اپنی روح ہوتی ہے۔لوگوں کے سوچنے اورسمجھنے کے کے انداز اور عمل کرنے کے پیمانے اپنے ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ جو ایک جگہ ہوا ہے وہ دوسرے ملک میں بھی ویسے ہی وقوع پذیر ہوجائے اور وہاں کے عوام بھی اسی طرح کے افعال کا مظاہرہ کریں جیسے کسی ایک خاص ملک میں خاص حالات میں عمل پذیر ہوا ہے ۔مٹی، آب و ہوا اور پانی کی آمیزش سے انسان کا خمیر اٹھتا ہے اور یہ تینوں عناصر ہر جگہ مختلف ہوتے ہیں ۔ شاعر ،ادیب فلاسفر، دانشور اور مفکرین پیکرِ خاکی میں اپنی سوچ کے دھاروں سے اس کی نشونما کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں جس سے انسان اہلِ علم و فن کے بتائے گئے راستوں سے گزرتا ہوا اپنی منزل تک رسائی کی کوشش کرتا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جو کچھ ترکی میں ہوا ہے وہی پاکستان میں بھی رونما ہو جائے۔ جہاں تک فوجی مداخلت کا تعلق ہے تو یہ توسارے اسلامی ممالک کا طرہ ِامتیاز ہے اور ہر اسلامی ملک میں اپنا وجود رکھتی ہے۔

مصر، شام، لیبیا، عراق،الجزائر، افغانستان، ملائیشیا،طرابلس ،بنگلہ دیش اور پاکستان کئی عشروں سے اسی طرح کے شب خونوں کے آہنی شکنجوں میں جکڑے رہے ہیں۔کبھی یہ مداخلت مارشل لاء کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی یہ بالواسطہ ہوتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ فوجی مداخلت کو روکنا سول حکومت کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ترکی میں کئی کامیاب اور ناکام بغاوتیں ہوئیں لیکن فوج کی بالا دستی میں کوئی فرق نہ آیا ۔ترکی میں فوج سیکو لر سوچ کی محافظ ہے لہذا وہ اس سے صرفِ نظر کرنا اپنی ذمہ داریوں سے فرار قرار دیتی ہے۔ترکی میں فوج اسی وقت مداخلت کر تی ہے جب اسے یہ یقین ہو جا تا ہے کہ سیاسی حکومت اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر رہی ہے اور اس سیکولر سوچ سے دور ہٹ رہی ہے۔

Tayyip Erdogan Party

Tayyip Erdogan Party

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ترکی ایک سیکولر ملک ہے اور یہی اس کی شناخت ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کی یہ شناخت اس کے بابائے قوم مصطفے کمال اتا ترک کی متعین کردہ ہے۔اس سوچ کو آئینی تحفظ حاصل ہے لہذا اس کی پیروی آئین سے بغاوت نہیں بلکہ اس کی بالا دستی قرار پاتی ہے۔ترکی کے وزیرِ اعظم عدنان مندیس کو پھانسی بھی اسی جرم کی بناء پر دی گئی تھی کہ وہ سیکولر سوچ سے دور ہٹ گئے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اسلام پسند سوچ کی حامل جماعت ہے لہذا اس کیلئے سیکولر سوچ کے ساتھ لمبا عرصہ چلنا نا ممکن ہے۔ جماعت اسلامی، اخوان المسلین اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنیادی طور پر ایک ہی سوچ کی حامل ہیں۔یہ مختلف ممالک میں تو ضرور ہیں لیکن ان کے پیرو مرشد ایک ہی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی آئینی حکو مت کو برطرف کر کے جنرل فتح السیسی نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو طیب اردگان نے کھل کر اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ طیب اردگان فوجی حکومت کے خلاف تھے بلکہ ان کی مخا لفت محض اس وجہ سے تھی کہ ڈاکٹر محمد مرسی ان کی جماعت ہی سے تعلق رکھتے تھے۔اگر فوجی حکومت بری ہوتی تو پھر جنرل پرویز مشرف سے طیب اردگان کی قربتیں کس کھاتے میں جائیں گی؟جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نواز شریف کی آئینی حکومت کو بر طرف کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا لیکن ترکی نے اس اقدام کی کبھی مذمت نہیں کی بلکہ جنرل پرویز مشرف سے ان کے تعلقات مثالی تھے ۔ جنرل پرویز مشرف کی آئیڈیل شخصیت مصطفے کمال اتا ترک تھے اور جنرل پرویز مشرف پاکستان میں ترکی کی کی طرز کا آئین لانا چاہتے تھے جس میں انھیں کامیابی نہ مل سکی کیونکہ اسمبلی میں ان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں تھی ۔بہر حال انھوں نے پاکستان میں سیکورٹی کونسل کی بنیاد رکھی جو سارے بڑے فیصلے کرنے کی مجاز تھی۔یہ الگ بات کہ ان کی سیکورٹی کونسل جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی کیونکہ سول حکومت اسے اپنے لئے خطرہ تصور کرتی تھی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا اب جمہوریت کی ایسی گاڑی پر سوار ہے جو اسے شخصی آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔جمہوریی قدروں سے ماوراء دنیا میں ابھی تک ا نتقالِ اقتدار کا ایسا کوئی نظام وضح نہیں ہو سکا جو انسانوں کی رائے سے روبہ عمل ہوتا ہو۔شخصی حکومتوں میں بھی انتقالِ اقتدار کا انتظام ہوتا ہے لیکن وہ صرف اپنے ہی خاندان کے افراد کی حد تک محدود ہوتا ہے لہذا وہ عوامی رائے سے محروم ہوتاہے اس لئے عوام اسے تسلیم نہیں کرتے۔شائد یہی وجہ ہے کہ جمہوری کلچر ساری دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے اور جمہوریت ہی سکہ رائج الوقت قرارپا رہی ہے۔پاکستان اور ترکی بھی جمہوری شناخت کے اہم ممالک ہیں لیکن ان میں وقفوں وقفوں سے فوجی شب خونوں کی روائت انھیں دوسری دنیا سے علیحدہ کرتی ہے۔ان دونوں ممالک کے عوام جمہوریت سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کے قائدین کی کرپشن کی کہانیاں اور لوٹ کھسوٹ کے معرکے جمہوری سوچ کے دشمن ہیں۔اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ہی جمہوریت کی سب سے بڑی دشمن ہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔

پاکستان کی ساری بڑی سیاسی جماعتیں خاندانی جماعتیں بن چکی ہیں ۔سیاسی جما عتوں میں انتخابات کی روائت نہیں ہے ۔اگر کسی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کا نابالغ بیٹا سیاسی جماعت کا چیرمین بن جائے یا وزیرِ اعظم کی عدم موجودگی میں اس کی غیر منتخب صاحب زادی ڈیفیکٹو وزیرِ اعظم کے فرائض سر انجام دے تو اس سے سیاسی جماعتوں کی جمہوری سوچ کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں خاندانی جماعتیں ہیںجہاں پر قیادت اسی خاندان کے فرد کے حصے میں آتی ہے جس نے کسی زمانے میں پارٹی بنائی تھی۔جب صورتِ حال یہ ہوگی کہ لوگوں کو کسی مخصوص خاندان کی غلامی پر مجبور کیا جاتا رہے گا تو پھر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جمہوریت کے دشمن کہیں باہر نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر موجود ہیںاور جمہوریت دشمنی کا حق ادا کر رہے ہیں ۔جب سیاست خاندانی اور وراثتی اثرات سے زہر آلود ہو جائے گی تو پھر کرپشن اور لوٹ مار کا کلچر سکہ رائج الوقت ٹھہرے گا اور اربوں روپوں کے گھپلے اور آف شور کمپنیوں کا شور عوام کو جمہوریت سے متنفر نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟

Democracy

Democracy

اگر جمہوریت کو اس کی اصل روح کے ساتھ پھلنے پھولنے کا موقعہ دیا جائے تو عوم جمہوریت کی خاطر اپنے سینوں پر گولیوں کھا سکتے ہیں ۔ لیکن اگر مقصد دولت سمیٹنا اور ملکی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کرنا ہی رہ جائیگا تو پھر کون ہو گا جو جمہوریت کے لٹ جانے پر پریشان ہو گا؟پاکستانی عوام سے بڑا جمہوریت پسند کون ہو گا جھنوں نے ووٹ کی طاقت سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تخلیق تھی اور اس کی خاطر لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔تاریخ ان کے اس کارنامے پر آج بھی انگشت بدندان ہے کیونکہ ایسے معجزے دنیا میں بہت کم رونما ہوتے ہیں۔لیکن اس کا کیا کریں کہ اسی قوم کے سامنے تین مارشل لاء لگتے ہیں تو وہ قوم مٹھائیاں تقسیم کرتی ہے اور فوجی حکمرانو ں کو خوش آمدید کہتی ہے۔

سوال جمہوریت سے نفرت کا نہیں بلکہ اس طرزِ حکمرانی سے نفرت ہے جس میں عوام مخصوص خاندانوں کے غلام بنا دئے جاتے ہیں۔ میڈیا کی آزادی عوام کو اصلی جمہوریت کی ڈگر پر ڈال رہی ہے اور انھیں خاندانوں کی غلامی سے آزاد کروانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہے لیکن اس کے نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیںکیونکہ وراثتی سیاست کے علمبردار جمہوریت کے نعروں کے باوجود جمہوری روح کی بالیدگی سے خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ اس طرح انھیں اپنے خاندانی اقتدار کا سورج غروب ہونے کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے۔پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی اسی دھڑکے کا نوحہ ہے ۔ جس دن خاندانی اقتدار کے نفاذ کا دھڑکا ختم ہو جائیگا حقیقی جمہوریت رو بہ عمل ہو جائیگی اور اس دن پاکستانی عوام جمہوریت کیلئے ٹینکوں اور توپوں سے لڑ جائیں گئے۔کوئی تو عوام کو وہ دن دکھائے جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور جوابدہی کا نظام قائم ہو جس کے سامنے ہر کوئی سرنگوں ہو۔جس کسی نے بھی ایسا کیا اس کے لئے عوام کی محبت دیدنی ہو گی وگرنہ وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے۔،۔

کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دہتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

Tariq Butt

Tariq Butt

تحریر : طارق حسین بٹ
چیرمین پیپلز ادبی فورم