ننھی پری

Park

Park

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میں حسب ِ معمول اپنے گھر کے قریب وسیع و عریض پارک میں شام سے پہلے واک کر نے آیا ہوا تھا سردیوں کا آغاز ہو چکا تھا گرمیاں رخصت ہو رہی تھیں ٹھنڈی ہوائوں میں خنکی کا احساس بڑھ رہا تھا موسم کی خوشگواریت کی وجہ سے بہت سارے لوگ پارک میں آئے ہو ئے تھے بچے ، نوجوان، بڑھے اور بو ڑھے ہر ہر عمر کے لو گ سبزہ پھول درخت جھیل ہر طرف خدا ئی قدرت اپنی رعنائی کا اور دلکشی کا مسحور کن احساس دلا رہی تھی کیونکہ گرمی کے بعد اب ٹھنڈ شروع ہو چکی تھی اِس لیے واک کر نے والے اور پارک کی سیر کر نے والوں کی تعداد بہت بڑھ چکی تھی میں جو بچپن سے سبزے ہریالی درخت پھول جھیل فطرت کا شوقین ہوں سب کچھ انجوائے کر تا ہوا تیزی سے مٹی کے واکنگ ٹریک پر ادھر ادھر دیکھتا بڑے بڑے قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا حسب ِ معمول میرے ہونٹوں پر اسماء الحسنی کا ورد جا ری تھا۔

پارک سبزہ فطرت کے خوبصورت منا ظر اوراللہ کا ذکر سبحان اللہ میرا جسم اور روح کیف انگیز کیفیت کو انجوائے کر رہے تھے خوشگوار موسم کے اثرات سے میرا جسم روح سرشاری کی حالت میں تھے دوران واک چند ایسے دوستوں کا سامنا بھی ہوا جو اکثر یہاں واک کر تے ہیں ان سے مسکراہٹ کا تبادلہ کر کے میں آگے بڑھتا جا رہا تھا کیونکہ پا رک میں لا ہو ر کے لوگوں کے علاوہ بہت بڑی تعداد مسافروں یا با ہر سے آنے والے لوگوں کی ہوتی ہے مختلف علاقوں سے آنے والے لوگوں کا اپنا اپنا کلچر زبا نیں رنگ و جسامت یہ سب مل کر ایک مخلوط کلچر سا بنادیتے ہیں میں اُن کو بغور دیکھتا جا رہا تھا اکادکا نئے شادی شدہ جو ڑے بھی نظر آرہے تھے جو دنیا ما فیا سے بے خبر اپنی ہی دھن میں ہا تھوں میں ہا تھ ڈالے بیٹھے یا چلتے نظر آرہے تھے یہ نئے شادی شدہ جو ڑے اپنی ہی دھن میں شادی کے خمار میں مست چہروں پر رنگوں کی قوس ِ قزح بکھیرے نظرا رہے تھے میں چونکہ بچپن سے متجسس مزاج رکھتا ہوں اور اِس لیے بغور لوگوں کو دیکھتا ہوا آگے بڑ ھ رہا تھا پا رک میں اکثر نوجوانوں کے مختلف ٹو لے بھی نظر آتے ہیں جو نوجوان لڑکیوں کو چھیڑنے یا آوازیں کسنے سے باز نہیں آتے وہ بھی نظر آرہے تھے ہر شریف انسان کی طرح مجھے بھی ان پر بہت غصہ آتا تھا لیکن ساتھ یہ بھی سوچ کہ یہ عمر ہی ایسی ہے جس میں خو ف ہوش کی بجا ئے صرف جوش اور جوش ہی ہو تا ہے۔

Park

Park

اِس لیے ایسے لڑکوں کو نظر انداز کر دیتا میں واک کرتا ہوا پارک کے ایسے حصے میں آگیا جہاں مجھے ایسا ہی اوباش نوجوانوں کا ٹولا نظر آیاجو شاید کسی لڑکی کو تنگ یا اُس پر آوازیں کس رہے تھے میں روزانہ کی طرح نظر انداز کر کے آگے بڑھ گیا لیکن جب واک کر تا ہوا پو را چکر لگا کر دوبارہ اُسی جگہ پر آیا تو دیکھا کہ وہ لڑکے اُسی طرح ہی لڑکی کو تنگ اور آوازیں کس رہے تھے اب میں نے بغور اُس لڑکی کی طرف دیکھا تو سامنے ایک پندرہ سولہ سال کی سکو ل کے یو نیفارم میں ملبوس کسی چھوٹے شہر کی دھان پان سی سادہ لڑکی نظریں جھکا ئے بیٹھی تھی اُس کی گود میںاُس کا کتا بوں کا بیگ بھی تھا پہلے تو میں ہلکا مزاق سمجھ کر گزر گیا اب مجھے معاملہ سنجیدہ نظر آنے لگا میں تھوڑی دور جا کر رک گیا اور حالات کا سنجیدگی اور نزا کت کا احساس کر نے لگا۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا تین یا چارلڑکے تھے جو بار ی باری اُس کو تنگ کر رہے تھے وہ لڑکی سر جھکا ئے بیٹھی تھی اُس کے پاس اُس کی کو ئی ساتھی یا بزرگ نہیں تھا۔

میں نے چند منٹوں میں ہی اندازہ لگا لیا کہ یہ اکیلی لڑکی ہے اِس کے ساتھ کو ئی بھی نہیں سورج غروب ہو نے کو تھا رات کا آنچل تیزی سے روشنی کو نگل رہا تھا نیم اندھیرے کی وجہ سے لڑکوں کی بد تمیزی میں اضا فہ ہو تا جا رہا تھا بلکہ وہ شاید اندھیرے کا انتظار کر رہے تھے تا کہ وہ زیادہ بد تمیزی کر سکیں میں سیچوئیشن کو بھا نپ چکا تھا کہ کو ئی اِس لڑکی کو یہاں چھو ڑ کر بھا گ گیا ہے اور یہ بیچاری اُس کا یا تو انتظار کر رہی ہے یا پھر اِس کو سمجھ نہیں آرہی کہ اب اِس پر دیسی شہر میں وہ کیا کر ے وہ مجبوری بے بسی کا بت بنی بیٹھی تھی اب میں جان چکا تھا کہ لڑکی شدید خطرے میں ہے اور کسی خو فنا ک حا دثے کا چکا ر ہو سکتی ہے میں نے فوری طور پر اپنے واقف سیکو رٹی گارڈ کو بلا یا اور اُس لڑکی کی طرف بڑھا مجھے اور سیکو رٹی گارا ڈکو آتے دیکھ کر اوباش بڑے تیزی سے بھاگ گئے میں آہستہ آہستہ بیٹی کے پاس ہو گیا اور اُس کے سامنے بیٹھ گیا پہلے تو وہ مجھے دیکھ کر بری طرح ڈر گئی خوف اور پر دیس کی وجہ سے اُس کا جسم لرز رہا تھا اُس کے چہرے پر خوف کی زردی پھیلی ہو ئی تھی اور آنکھوں میں خوف دہشت و یرانی اور قبرستان کے سناٹے کا راج تھا۔

Girl Sad

Girl Sad

میں شفیق لہجے میں بو لا بیٹی مجھ سے ڈرو نہ میں آپ کے با پ جیسا ہو ں تم میری بیٹی ہو اب تمہیں کو ئی خطرہ نہیں ہے آپ میری بیٹی ہو اب تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میرے لہجے کی شفقت اور مٹھاس سے اُس کی آنکھوں میں زندگی کی رمق لہرائی اور اُس نے میری طرف دیکھا میرے شفقت سے لبریز لہجے سے اُس کے اندر جیسے کو ئی آنسوئوں کا جھرنا پھوٹ پڑا جیسے خو دبخود کو ئی والو کھل گیا ہو اور پا نی بہنا شروع ہو گیا اُس کی معصوم آنکھوں میں عجیب سا سیلاب تھا جو اب بند تو ڑ کر بہہ نکلا تھا نہ اُس کے چہرے کا زاویہ بدلا نہ ہی کو ئی آہ بکا نہ سسکی نہ چیخ نہ آواز پا نی اُس کی آنکھوں سے اُس کے رخساروں کو مسلسل تر کر نے لگا اُس کے اندر کا کرب اُس کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا خو ف اور دہشت سے وہ شاید قوت گو یائی سے محروم ہو چکی تھی آنسوئوں کی کثرت نے اُس کی قوت گو یا ئی چھین لی تھی یا وہ لکنت کا چکا ر ہو چکی تھی مجھے اُس پر بہت پیا رآرہا تھا میں اُس کی بے بسی اور آنسوئوں کی برسا ت سے اندر ہی اندر کٹ رہا تھا وہ ننھی معصوم پری آپنے آنسوئوں سے اپنے اوپر ہو نے والے طلسم کی داستان سنا رہی تھی ۔ میرے شفقت بھرے رویے کی وجہ سے اُس نے کئی بار بو لنے کی کوشش کی۔

لیکن زبان شاید اُس کے اختیار میں نہیں تھے یا خوف نے اُس کے جسم و جان کو اِس بری طرح جکڑا ہوا تھا کہ الفاظ زبان پر آنے سے پہلے ہی تہلیل ہو جا تے تھے اُس کے اعصاب اور عضلات کسی بہت بڑی منفی کیمیا ئی تبدیلی سے گزرے تھے کہ اُن کا اِس میں تا ل میل ختم ہو حرکت بیٹھی تھی مجھے لگ رہا تھا وہ شاید نیم فالجی کیفیت کا شکار ہو چکی ہی وہ اپنے آپ میں نہیں تھی اُس کا جسم اور دما غ کسی شدید حا دثے سے گزرنے کے بعد کا م کر نا چھوڑ چکے تھے اُس کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہ جا رہی تھی میں نے اپنا ہا تھ بڑھا کر اُس کے سر پر رکھ دیا محفوظ ہو تم بالکل نہ ڈرو وہ خا موش گہری نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی درد دکھ نمی بن کر اُس کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا وہ رونے کی کو شش نہیں کر رہی تھی آنسو اُس کے ضبط کے سارے بندھن تو ڑ کر خو د بخود بہے جا رہے تھے اُس کے اندر پتہ نہیں کتنے سمندوں کا پانی تھا جو ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہا تھا اُس کا معصوم نا زک چہرہ لگا تار آنسوئوں سے بھیگ چکا تھا میں چاہ رہا تھا کہ وہ کچھ بو لے الفاظ نکلے وہ مجھے بے یار و مددگار چھوڑ کر چلا گیا اور پھر بلک بلک کر رونے لگی۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org