جینے کا حق……

Flawer Sale

Flawer Sale

تحریر: ارم فاطمہ
زندگی روں دواں ہے۔وقت گذر رہا ہے کبھی مہرباں تو کبھی نا مہربان ہم سب بھاگ رہے ہیں۔کسی نہ کسی چیز کے پیچھے کوئی دولت کے پیچھے کوئی شہرت کے کسی کو کرسی کی ہوس ہے تو کسی کو عزت اور نام کی خواہش اور سب سے بڑھ کر ہم زندگی سے خوشیاں کشید کرنے کے لئے ہر طرح کی تگ و دو میں مصروف۔۔۔اس دوڑ میں رشتوں کو بھلاتے ان سے ناطہ توڑتے اورہر احساس کو ختم کرتے۔۔۔ خود غرضی کا لبادہ اوڑھے اب کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگتے ہیں اپنی دنیا کی خوبصورتی کو ختم کرتے۔۔۔

کیا کبھی کسی نے ان معصوم نازک پھول کی مانند بچوں کو دیکھا ہے ؟جو اپنے ننھے ہاتھوں میں گجرے اور پھولوں کے ہار لئے،کہیں گبارے اور کھلونیلئے ،کہیں ٹریفک سگنلز پر صفائی کا کپڑا لئے گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے جو ان کے خوابوں کو ہی روبدتے چلے جاتے ہیں۔کبھی کہیں ہاتھوں میں کشکول لئے صدائیں دیتے پیوند کپڑوں مین، کہیں اپنے وجود سے بھاری اوزار اٹھائیورکشاپوں، فیکڑتیوں کے دھوؤں میں، کہیں چائے کے ڈھابوں پہ اور کبھی شاپنگ بازاروں میں دس روپے کے مال لئے کبھی کسی گاڑی کے پیچھے بھاگتے اور کبھی کسی خاتوں کا دامن پکڑے التجائیں کرتے ہوئے ”بیبی جی صرف دس روپے کا مال ” ان کی آنکھوں کی التجائیں ان کے لہجے کا کرب ان کے دلوں میں چھپی حسرتوں کی موت کبھی کسی نے نہیں دیکھی ہوگی۔ہر سال عیدین کی خوشیون میں ان کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی کہاں ملتا ہے ؟

پاکستان کو بنے 68 سال ہو چکے ہیںایسا ملک جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا کہ جہاں سب آزادی سے زندگی گذار سکیں سب کو ان کے حقوق ملین پھر کیا وجہ ہے کہ نوعمر بچے اپنے بنیادی حقوق اور تعلیمی حقوق سے محروم مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔بچوں کی مزدوری کی اہم وجہ غربت ہے پاکستان میں 65 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔وہ اپنے بچوں کو مزدوری کے لئے بھیجنے پر مجبور ہیں تاکہ گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ پڑے۔آخری سروے جو 1996 میں گیا گیا اس میں بتایا گیا ملک میں 33 لاکھ مزدور بچے ہیں جبکہ گھروں اور فیکٹریں میں 20 لاکھ سے زائد بچے جن کی عمریں 6 سے 13 سال ہیں زندگی کی مشقت سہتے ہیں اور کئی لاکھ بچے صرف بھیک کے کاروبار سے منسلک ہیں یہ مزدور بچے اس قدر بدنصیب ہیں کہ زیادہ مزدوری کرنے کے باوجود کم اجرت لینے پر مجبور ہیں۔ان بچوں کو کام کے ساتھ ساتھ سزائیں بھی دی جاتیں ہیں ان کی صحت صفائی اور علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔اور ان کے لئے کسی قسم کی قانون سازی بھی نہیں کی گئی۔

Poor

Poor

آج تک کسی بھی حکومت نے ٹھوس بنیادوں پر کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی اور نہ ہی معاشرے کے کسی طبقے کی طرف سے کوئی پیش رفت سامنے آتی ہے۔حکمرانوں کے بلند وبانگ دعوے بڑکیں اور بہت سی این جی اوزجو بچوں کے حقوق کی دعویدار ہیں نیند کی گولی کھا کر گہری نیند سو جاتیں ہیں جبکہ یہ مزدور بچے کسی پارک یا فٹ پاتھ پر نیند کی گولی کھائے بغیر گہری نیند سو جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے آج کے دور میں غریب کو انسان ہونے یا جینے کا کوئی حق نہیں۔

ہم لوگ بے حس اور احساس سے عاری لوگ ہیں ہم اس نبی کے امتی ہیں جو محسن انسانیت کہلائے جنہوں نے کردار میں رواداری، حسن سلوک ، حسن اخلاق،ایثار،ہمدردی ،محبت اور احساس انسانیت کو سب سے زیادہ فوقیت دی۔ کیا بحثیت انسان ہم اپنے فرائض پورے کر رہے ہیں ؟

ہماری صفوں میں کون ایسا وارث انبیائ ہے جو ان غریبوں کے ساتھ راتیں بسر کرتا ہے؟آج کوئی ایسا دکھائی دیتا ہے جو مٹی اور میل سے اٹے ہاتھون کو آگے برھ کر چومے اور اسو? نبی کو زندہ کرے۔کون ایسا وارث نبی ہیجو اپنے کسی ہمسائے، کسی رشتہ دار یا کسی مزدور کی زندگی کی مشکلوں کو سمجھے اور اسے دلاسا دے۔کون ہے جو نا امیدیوں میں امید کی کرن دکھایے مایوس دلوں کو سوکھے پتوں کی طرح بکھرنے سے پہلے پانی سے سیراب کر دے؟

Poor Child

Poor Child

عید الفطر کا موقع ہیان یتیم اور مزدور اور مفلوک الحال بچوں کے لئے جو اپنی تنگدستی کی وجہ سے خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور خواہشات کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں عید الفطر ان پر دست شفقت رکھنے کا نام ہے۔جن کو کوئی عیدی نہیں دیتا جو اچھا لباس پہنے کو ترس جاتے ہیں۔ عید الفطر منانے کا حق انہین ہے جو اپنی کوشیوں میں غریبوں کو بھی شریک رکھتے ہیں۔ نماز عید سے قبل صدقہ وفطر کی ادائیگی بھی اسی لئے کی جاتی ہے تا کہ تنگ دست اور پریشان حال لوگ بھی عید کی مسرتوں میں شامل ہو سکیں۔اگر آپ عید پر اپنے بچوں کی شاپنگ کر رہے ہیں تو کوشش کریں کسی غریب یا یتیم کے لیے خرید کر انہیں بھی ان خوشیوں مین شامل کر لیں۔

مگر ہم اپنی زندگیوں میں اس کی خوشیون کو سمیٹتے یہ بھول جاتے ہین کہ ہمارے ارد گرد کتنے ایسے خوشیوں اور مسرتون سے محروم لوگ ہین جنہیں ہماری جرورت ہےکیا ہم کسی حد تک ان فائض کو پورا کر رہے ہیں جو بحثیت انسان ہم پہ عائد ہوتیں ہین؟

ہمیں جینے کا حق ہے کیونکہ ہماری زندگی مسرتوں اور خوشیوں سے لبریز ہے اور ان لوگوں کو جینے کا کوئی حق نہیں جو اپنی زندگی کی مشکلات سے ہر لمحہ ایک جدوجہد اور مشقت میں گذار رہے ہیں۔یہ زندگی ان کا اپنا انتخاب نہیں یہ وہ زندگی ہے جو معاشرے کی ناہمواریوں اور بے ھصی کے نظام کی دین ہے جس نے ان سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ ہم اپنے احساس محبت اور رواداری سے انہیں ان کے جینے کا حق دے سکتے ہیں اگر یہ معاشرہ اور اس کے افرادزندگی کے اس نصب العین کو اپنا لیں کہ ہمیں سب کو برابری کی نطر سے دیکھنا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کرنا ہے

Iram Fatima

Iram Fatima

تحریر: ارم فاطمہ