نیچے اتر کے تو آ

Pen and  Paper

Pen and Paper

تحریر:حفیظ اللہ شیرانی
سب بے بس دیکھ رہے تھے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔ کہتے تو کیا کہتے کرتے تو کیا کرتے ؟کیونکہ سب دوست قلم اور سفید کاغذ ساتھ لے کر دنیا کے سامنے یہی بے بسی تولانا چاہ رہے تھے جو انہیں نظر آرہی تھی ۔۔۔ سفید رنگ کی چوڑیاں اسکی بازوں بلکہ بغل تک نظر آرہیں تھی وہ حیرت زدہ آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔۔ گود میں چند ماہ کا بچہ، سامنے ہلاک بکری ، سائیڈ پر خوبصورت مور کا مردہ جوڑا اور دوسری طرف ہمارے چند ساتھی کھڑے تھے اسکی آنکھوں میں آنسو تھے پر وہ رو نہیں رہی تھی شاید وہ رونا چاہ رہی تھی مگر کس کس پر روتی ؟ کاغذ کے چہرے پر دو لائنیں لکھنے کے بعد ساتھیوں کے ساتھ چند قدم آگے جھونپڑی کے قریب پہنچتے ہی دو نوجوان چارپائی کندھوں پر اٹھاے قبرستان سے آرہے تھے۔ پوچھا تو بتایا گیا کہ ایک گھر کے دو بچوں کو دفنا کر واپس آرہے ہیں۔ کسی نے ایک خاتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بد قسمت ماں کے بچے تھے۔ اب تک بے چاری کے چاربچے فوت ہوچکیہیں۔ صرف ایک بیٹی رہ گئی ہے وہ بھی موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے۔

آپ حیران ہونگے کہ خان صاحب کس جہاں اور کس ملک کی بات کر رہیہیں۔۔۔۔۔ جی یقیناًمیں کسی افریقی ملک کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ مملکت خداد کے صوبہ سندھ کے ضلع تھر پاکر کی بات کررہا ہوں۔۔ یہ تو صرف دو مناظر آپکے سامنے بیان کر چکا ہوں ایسی ہزاروں داستانیں ہیں یہاں۔۔۔۔۔ ہرجھونپڑی اور جھونپڑی نما گھر کا یہی حال ہے۔ صف ماتم بچھ چکی ہے، کوئی مرے ہوئے کی یاد میں رورہا تھا تو کوئی سامنے پڑے مرنے والے پہ۔۔۔۔۔۔ہم صحافی دوست کاغذکاچہرہ کالا کرنے کے ساتھ چند ایک آنسو بھی بہارہے تھے مرنے اور برائے نام زندہ بچ جانے والوں پہ۔۔۔ اس سے زیادہ توخود کی بے بسی اور حکمرانوں کی لاپرواہی پررونا آرہا تھا۔تھرپاکر پاکستان کے بڑے اور کوئلے کے ذخائرکے لحاظ سے مالا مال ضلعوں میں شمارہوتا ہے۔۔ یہاں ریگستان کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں۔۔۔ مون سون کے موسم میں جب یہاں قدرت مہربان ھو کر بارشیں برساتی ہے تو یہ جنت صغیر کا منظر پیش کر رہا ھوتا ہے۔۔مگر قدرت جب منہ موڑ لیتی ہے تو تھر کی زمین بھی روٹھ جاتی ہے اورپھر پھولوں جیسے بچے اور مور جیسے پرندے نگلنا شروع کر دیتی ہے ۔

Death

Death

خوبصورت مور تو دیکھے بھی ہونگے اور اسکے بارے میں سنا بھی ہوگا وہ اسی سرزمین کی اولاد ہے۔۔۔ مگر افسوس یہاں انسان چرند و پرند مملکت خداداد کے ٹھیکداروں کی لاپرواہی سے موت کی وادی کے جبرا مسافر بنے ہوئے ہیں۔کوئی اس تاریک وادی میں گم ہوا ہے ، تو کوئی اسی راستے پر جانے کی تیاری میں ہے ۔ شاید واپسی کی کوئی امید دکھائی جو نہیں دیتی۔۔۔ اسی لیے سب ایک ایک کرکے اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔۔۔یقیناًتھر کے بچوں کو تھر کی بھوک اور افلاس کی قرب ناک زندگی سے موت میٹھی، بہتر اور آرام دہ نظر آرہی ہے جو ہر روز درجنوں کے حساب سے موت کو گلے لگا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے بھی زیادہ تو اہم وجہ یہ ہے کہ سرداروں ،وڈیروں، نوابوں ،راڑوں ، اربابوں ،میاووں ، زرداروں اورجاگیرداروں نے انہیں کبھی زندگی کا وہ چہرہ غلطی سے بھی نہیں دکھایا ہے جو وہ موت کے بجاے زندگی کو گلے لگاتے۔۔۔۔ تھر پارکر کی زمین چیخ چیخ کر صاحب اقتدار سے پوچھ رہی ہیکہ متحدہ ہندوستان کے دور میں نہ تو کوئی پیاس سے ہلاک ہو ا نہ بھوک سے۔۔۔ نہ ہی کسی دوسری بیماری سے۔۔ تھر کے ہندووءں کی ہر چھونپڑی اور ہر مندرسے یہ صدا آرہی تھی کہ جب یہاں ہندووں کی اکثریت تھی تو نہ مسلمان کے بچے مر رہے تھے نہ ہندووءں کے بچے۔۔۔۔۔۔۔ آج تو سب مر رہے ہیں۔۔۔(میں تو لاجواب تھا )

اب چونکہ ہندوستان کی تقسیم کو ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مگر تھر میں مسلمانوں اور ہندووں کے بجاے مُردوں کی اکثریت بڑھتی جارہی ہے اسی لیے زندہ بھی اب مردوں کے قافلے میں شامل ھونے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔۔تھر میں کم عمر بچوں کی اموات اب ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کتنے ہزار بچے مر چکے ہیں سوال تو یہ ہے کہ کتنے ہزار بچے زندہ رہ چکے ہیں اور کتنے سوکی زندہ رہنے کی امید ہے ؟ہزاروں سے سینکڑوں تک کاکیوں نہ کہوں ؟ موت کا رقص جو بھر پور انداز سے جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوردوسری طرف ملک کا سب سے بڑامسئلہ۔۔ میرا، ریما۔ عمران خان ، الطاف بھائی ، میاں صاحبان، اور نومولود نامعلوم پارٹی جو ہے ایسے میں اینکر پرسنز اور قوم پر بٹھائے گئے حکمرانوں اور بنائے گئے بڑوں کو کیا فکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناامیدی گناہ ہے مگر شرط یہ ہے کہ کچھ کرنے کا پکا ارادہ ہوں میں خود تو ناامید نہیں ہوں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سن لو !ہوش کے ناخن لو اے بڑے محلوں میں عیاشیاں کرنیوالوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان جھونپڑیوں میں رہنے والے موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا انسانوں پر رحم کر۔۔۔۔ ورنہ انکی آہیں آپکے محلوں کے روشن چراغوں کو ایک دن گل کر دینگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بے بسی پر مشہور سندھی شاعر شیخ ایاز نے کیا خوب کہا ہے سندھی سے اردو میں ترجمہ کچھ یوں ہے۔۔

PRAY

PRAY

(خدا کو مخاطب کرتے ھوے )
ایک بار نیچے اتر کے تو آؤ
یہ جو جہاں آپ نے بنائی ہے اسکو دیکھ کے جاؤ
ایک بار سوکھی روٹی ، کالے گھڑکا ذائقہ چکھ کے جاؤ
کونسے لوگ ؟ تیرے لوگ
اپنے بندوں پہ نشان لگا کے جاو
ایک بار نیچے اتر کے تو آؤ۔

تحریر: تحریر:حفیظ اللہ شیرانی