نظر کے کینوس پر خونچکاں پیکر بناتا ہوں

نظر کے کینوس پر خونچکاں پیکر بناتا ہوں
میں اپنی وحشتوں کے روز و شب منظر بناتا ہوں

تخیل جب مجھے لے جائے ہے رنگوں کی بستی میں
کبھی دھرتی کا تنہا دکھ کبھی امبر بناتا ہوں

میری محرومیوں نے کیا سے کیا رستے نکالے ہیں
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں

مجھے آفاق کے جھوٹے فسانے زہر لگتے ہیں
میں اِس دھرتی کو اپنی سوچ کا محور بناتا ہوں

جسے ہاتھوں کی کٹتی انگلیاں تخلیق کرتی ہیں
وہی تصویر دِل کی لوح پر اکثر بناتا ہوں

مجھے ہر روز لہروں سے الجھتا دیکھنے والو
زمیں کم ہے تبھی تو پانیوں پہ گھر بناتا ہوں

رِدائے ہوش پر بہکے ہوئے لمحوں کی تصویریں
کوئی پوچھے کبھی ساحل کہ میں کیونکر بناتا ہوں

Sad Girl Looking

Sad Girl Looking

تحریر : ساحل منیر