خسارہ زیادہ، ملکی قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ جنرل باجوہ

General Qamar Javaid Bajwa

General Qamar Javaid Bajwa

کراچی (جیوڈیسک) پاکستان کی بری افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کو فوج کی سیکورٹی میں مکمل کیا جائے گا۔ منصوبے پر کام کرنے والے چینیوں کی سیکورٹی ہماری ذمہ داری ہے۔

کراچی میں فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس پاکستان اور فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال پر فوج نے دیگر اداروں کی مدد سے قابو پالیا ہے۔ اب پاکستان میں عالمی کرکٹ، ثقافتی سرگرمیاں اور دیگر بڑی تقاریب کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں بوہرہ کمیونٹی کے اہم اجتماعات کا پر امن انعقاد ہوا جس میں ہزاروں بھارتی شہریوں نے بھی شرکت کی۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ سی پیک پر کام کرنے والے چینی دوستوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے جسے ہر صورت پورا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہدری پر تقریبا 46 منصوبے شامل ہیں۔ منصوبے پر امریکی حکام نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ منصوبہ ملک کے شمالی علاقہ جات سے گزرتا ہے جو کہ متنازعہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ کراچی میں دیرپا امن ہماری ترجیح ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے معیشت پس پشت چلی گئی ہے۔ ملک کی اقتصادی صورت حال قومی سلامتی سے جڑی ہے۔ انہوں نے ملک کی خراب معاشی صورتِ حال کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ توانائی اور انفراسٹرکچر میں ترقی ضرور ہوئی لیکن جاری کھاتوں کا خسارہ بے حد زیادہ ہوگیا ہے۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں قلیل آمدن معیشت کے لئے اچھی علامات نہیں۔ ملکی قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ معیشت کا تعلق پوری قومی زندگی کے ساتھ ہے۔ عام آدمی چاہتا ہے کہ اسکے ساتھ مساوی برتاو کیا جائے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ سیکورٹی صورتحال میں بہتری کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کی اقتصادی بہتری کو ترجیح بنایا جائے۔ قومی سلامتی کی ہر کانفرنس میں اقتصادیات سب سے اہم موضوع رہا ہے اور فوج کیلئے بھی اقتصادیات کی بہتری اہم ایشو رہا ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ٹیکس بیس میں اضافہ کرنے اور اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

سیمینارمیں کراچی کے ممتاز تاجروں، صنعتکاروں کے علاوہ ماہرین معیشت نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔