بھٹکے ہوئے لوگ !

Forgotten People

Forgotten People

تحریر: شیخ خالد زاہد
آپ کوئی راستہ بھٹک جائیں۔۔۔ کہیں کہ کہیں پہنچ جائیں۔۔۔ بتانے والے بھی آپ کو غلط پر غلط راستہ بتاتے جائیں۔۔۔ آپ تھک ہار کہ بیٹھ جائو گے ۔۔۔اگر واپسی کا راستہ بھی بھول گئے تو راستے میں ہی کہیں پیوندِ خاک ہوجائینگے ۔۔۔پرانے وقتوں میں جب کوئی سفر پر روانہ ہوتا تھا تو سب سے مل ملا کر معافی تلافی کر کہ نکلتا تھا۔۔۔ شائد اس کی وجہ کچھ یہ ہی ہوگی کہ واپسی ممکن ہو یا نہ ہو۔۔۔یوں تو قدرت کوئی نہ کوئی انتظام بھٹکے ہوئے لوگوں کیلئے کر کے رکھتی ہے۔۔۔کبھی یہی بھٹکے ہوئے لوگ نیا راستہ دریافت کرلیتے ہیں۔۔۔

بھٹکے ہوئے لوگوں کی بظاہر دو قسمیں سمجھ آتی ہیں۔۔۔ایک تو وہ جنہیں راستے کا علم نا ہو اور وہ سفر شروع کردیں بغیر راستے کی جانکاری لئے ۔۔۔دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہیں راستہ تو معلوم ہوتا ہے مگر وہ منزل پر پہنچنے کیلئے کسی نئے راستے کی دریافت میں سرگردہ ہوجاتے ہیں یا الجھ جاتے ہیں۔۔۔یقینا ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہونگے ۔۔۔دورِ حاضر میں دوسری قسم کی تعداد پہلی قسم کہ بھٹکے ہوئے لوگوں سے زیادہ ہے۔۔۔ ہم معلومات کے سمندر کہ دور میں ہیں۔۔۔ہر طرف جانکاری ہی جانکاری ہے ۔۔۔سب کو کم و بیش کچھ نہ کچھ معلوم ہے یا سب کچھ معلوم ہے۔۔۔اگر کوئی پوری بات نہیں جانتا تو اس نے پڑھ یا سن ضرور رکھا ہوگا۔۔۔کیا یہ ہی وجہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے نقوش بننے کی بجائے مٹتے جارہے ہیں۔۔۔معلومات کہ اس لا محدود ذخیرے کی مرہون منت آج بچہ کسی بڑے کی کوئی بات آسانی سے رد کردیتا ہے۔۔۔یقینا وہ معلومات کہ دور کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔۔۔عموماً یہ بھی سننے کو ملتا ہے ۔۔۔ہمیں پتہ ہے۔۔۔ہم جانتے ہیں۔۔۔لیکن اتنی معلوما ت کہ باوجود معاملات روز با روز بگڑتے جا رہے۔۔۔سب کچھ الٹ پلٹ ہوئے جا رہا ہے۔۔۔پرانے وقت میں معلومات تو تھی مگر ذرائع محدود تھے۔۔۔مخصوص افراد کی جاگیر جانی جاتی تھی۔۔۔آج معلومات کا کوئی دعویدار نہیں ہے۔۔۔آج ذرائع بہت ہوچکے ہیں۔۔۔پہلے کتابیں ، اخبارات اور رسائل معلومات کے بنیادی ذرائع تھے۔۔۔یا بزرگوں کا علم نایاب تھا۔۔۔آج ذریعوں کی بہتات ہے۔۔۔کتابیں ، اخبارات اور رسائل تو اب بھی ہیں بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں ہیں۔۔۔مگر آج برقی دور ہے ۔۔۔ہر چیز ہر معلومات با آسانی میسر ہے۔۔۔

Change Way

Change Way

ہم رکتے ہی نہیں ۔۔۔ دیکھتے اور سننے پر دھیان نہیںدیتے۔۔۔سب کچھ چلتے چلتے ہوتا جاتا ہے۔۔۔کسی کی تعریف کسی کی برائی ۔۔۔کسی کی عیادت کسی کی تعزیت ۔۔۔کسی کی شادی کسی کی میت ۔۔۔سب جگہ ہم چلتے رہتے ہیں۔۔۔حال احوال بھی اشاروں میںمعلوم کرلیتے ہیں۔۔۔بظاہر اس جگہ کھڑے ہیںمگر ذہنی طور سے کہیں اور آگے پہنچے ہوتے ہیں۔۔۔ٹہرنے سے اور دھیان سے عاری ہوئے جارہے ہیں۔۔۔جہاں بیٹھے ہوتے ہیں وہاں سے کہیں آگے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔جہاں جانا ہوتا ہے وہاں سے آگے کیا ہے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں۔۔۔جیسے روح اور جسم آپسی ناراض ہوئے ہوں ۔۔۔ایک کہیں تو دوسرا کہیں۔۔۔سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ملتا ہے۔۔۔نکلتے کہیں جانے کیلئے ہیں مگر راستے میں خیال آیا وہاں سے ہوتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔۔۔اچانک راستہ بدل لیتے ہیں۔۔۔اس طرح کا معاملہ کم و بیش سب کہ ساتھ ہے۔۔۔ابھی بچہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔مگر اس سے توقعات ایسی وابستہ کر رکھی ہیں۔۔۔جیسے ایک بہت با شعور اور بڑا فرد ہو۔۔۔ہماری کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔۔۔روز بروز الجھتے جارہے ہیں۔۔۔

ہر روز انگنت لوگ اپنی زندگی کی لڑائی ہار جاتے ہیں۔۔۔کچھ لوگ بیماریوں سے لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔۔۔کچھ لوگوں سے ان کے جینے کا حق انہیں بتائے بغیر ہی چھین لیا جاتا ہے ۔۔۔دھماکے ہورہے ہیں ۔۔۔نا معلوم افراد دندناتے پھر رہے ہیں۔۔۔عمارتوں میں آگ لگ رہی ہے۔۔۔عبادگاہیں محفوظ نہیں ۔۔۔تعلیمی ادارے محفوظ نہیں۔۔۔ہمارے محافظ محفوظ نہیں۔۔۔کون مار رہا ہے ۔۔۔کیوں مر رہا ہے ۔۔۔سگنلز پر کوئی رکنے کو تیار نہیں۔۔۔قانون اور قانون کہ رکھوالوں کا خوف نہیںہے۔۔۔بس سب چل رہا ہیں بلکہ دوڑ رہے ہیں ۔۔۔دھرنے دئیے جارہے ہیں۔۔۔دھرنوں کی حفاظت ہو رہی ہے۔۔۔ہمارے پیارے وطن پاکستان میں قانون کی بالادستی نہیں۔۔۔ایسا لکھنے میں کوئی شرمندگی بھی نہیں۔۔۔اگر کسی کو کوئی ملک قومیت دینے کو تیار نہیں تو وہ پاکستان آجائے۔۔۔یہاں شناختی کارڈ بن جاتا ہے اور پاکستانی کہلایا جانے لگتا ہے ۔۔۔پاسپورٹ بھی بن جاتا ہے ۔۔۔ڈرائیونگ لائسنس بھی بن جاتا ہے ۔۔۔پاکستان کے اربابِ اختیار ایسے لوگوں کو پناہ دے دیتے ہیں۔۔۔کیوں یہ ہم سب کو پتہ ہے۔۔۔اور پھرکسی حادثے کہ بعداسے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔۔۔پہلے زخم دیتے ہیں ۔۔۔پھر زخموں پر مرحم رکھنے پہنچ جاتے ہیں۔۔۔ہمارے سیاست دان اپنی حفاظت کیلئے پورے وطنِ عزیز سے محافظوں کے دستے منگوالیتے ہیں۔۔۔بلیٹ سے محفوظ رکھنے والی گاڑیاں مہنگے داموں منگوا لیتے ہیں۔۔۔عوام کی زندگی کوئی معنی و حیثیت نہیں رکھتی ۔۔۔

Bribery

Bribery

پاکستان میں رشوت اور چور بازاری عام ہے ۔۔۔یہاں ادارے روز بروز زبوں حالی کا شکا ر ہورہے ہیں۔۔۔پاکستانی عوام چاہے وہ کسی بھی صوبے یا زبان والی ہو۔۔۔چاہے اس کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو۔۔۔پانی نہیں ، بجلی نہیں، گیس نہیں، ہسپتالوں میں دوائیں نہیں۔۔۔مگر ہمارے سیاست دانوں کی عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں۔۔۔اور انہیں کوئی شرمندگی بھی نہیں۔۔۔ہمارے ملک میں زبانی جمع خرچ اتنا ہے کہ کوئی اندازہ نہیں۔۔۔خبروں کی بھرمار ہے ۔۔۔مگر کوئی سدِ باب نہیں۔۔۔ دہشت گردی کی مذمت کی گونج ہر وقت ہماری سماعتوں سے ٹکراتی رہتی ہے۔۔۔دہشت گرد بھی خوش ہوتے ہونگے ہمارے کئے کو اتنا چرچا ملتا ہے۔۔۔دہشت گرد اپنی دہشت گردی سے مخصوص علاقے کو دہشت زدہ کرتے ہیں۔۔۔مگر میڈیا کی گونج اسے گھر گھر پہنچا دیتی ہے۔۔۔پورے ملک کو دہشت زدہ کردیتی ہے۔۔۔

پاکستان ہماری لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔آج ہم اپنی لگن کی بدولت ایٹمی طاقت ہیں۔۔۔ہم میں لگن کی کمی نہیں۔۔۔ہم بھٹکے ہوئے لوگ نہیں تھے۔۔۔ہمیں باقاعدہ بھٹکایا گیاہے۔۔۔ہمیں ہماری منزل سے دور کیا گیا ہے۔۔۔کبھی ہماری سرحدوں پر گولہ بارود پھینک کر۔۔۔کبھی ہم پر الزامات کی بھر مار کر کہ۔۔۔کبھی ہمارے اندر سیاسی غلط فہمیاں پیدا کرکے۔۔۔تو کبھی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا کر۔۔۔ہماری حکومتوں کو عوامی مسائل کی طرف توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں دی جاتی۔۔۔ہم سب الہ کار بنے ہوئے ہیں ۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اپنے وطن کی عزت و عصمت پامال کر رہے ہیں۔۔۔ہمارے اربابِ اختیار ان باتوں پر دھیان کیوں نہیں دیتے ۔۔۔ملک کی سالمیت ملک کی عوام سے ہے۔۔۔عوام نے آپ پر اعتماد کرنا شروع کردیا تو آپ کو الیکشن کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔۔آپ کچھ نہیں کرسکتے تو عوام کہ ساتھ روزانہ کی بنیادوں پر کچھ نہ کچھ وقت گزارئے۔۔۔عوام کی اور اپنی راہ پر چلنے کی کوشش کیجئے۔۔۔بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ مل جائے گا۔۔۔آپ دیکھیں ایسے مشکل حالات میں بھی پاکستان آئے دن کسی نہ کسی جگہ اپنا جھنڈا اونچا کئے جاتا ہے۔۔۔ایسے ہی حالات میں نیوکلئیر پاور بن گئے۔۔۔اگر ہم بھٹکے ہوئے نہ ہوتے تو ذرا سوچئے کہاں ہوتے۔۔۔

ہمیں باقاعدہ طور پر اپنے راستے سے اپنی منزل کی جانب پیش قدمی کرنے سے روکا جا رہا ہے۔۔۔یہ تمام مسائل جو ہمیں درپیش ہیں۔۔۔یہ دراصل مسائل نہیں راستے کی رکاوٹیں ہیں۔۔۔اب ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ دشمن کی رکاوٹوں سے اپنا راستہ اپنی منزل بدل لیں ۔۔۔یا پھر ان سے نبردآزما ہونے کیلئے سدِ باب کریں۔۔۔

Sheikh Khalid Zahid

Sheikh Khalid Zahid

تحریر: شیخ خالد زاہد