عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت سے بڑھ کر (20)

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

تحریر : پروفیسر محمد عبد اللہ بھٹی
ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ بیمار ہوئیں تو شیرِ خدا نے آپ سے فرمایا ۔ کچھ کھانے کو دِل کرتا ہے تو بتائیں سیدہ فاطمہ نے عرض کی کسی چیز کو دل نہیں کرتا لیکن حضرت علی نے جب بار بار اصرار کیا تو سیدہ فاطمہ جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کی میرے بابا جان نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں ممکن ہے آپ اسے پورا نہ کر سکیں تو آپ کو رنج ہو اِس لیے میں کچھ نہیں کہتی ۔ لیکن جب حضرت علی نے بار بار کہا اور سیدہ فاطمہ کو قسم دی تو بی بی صاحبہ نے انار کا ذکر کیا ۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے درمیان کبھی لڑائی نہ ہوئی اور دونوں نے خوشگوار زندگی بسر کی ۔ آپ بے پناہ عبادت گزار تھیں شب و روز بے شمار نمازیں پڑھا کرتی تھیں اپنے بابا جان کے ہمراہ 10ہجری میں آخری حج فرمایا ۔ سید کائنات ۖ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جنت میں عورتوں کی سردار فاطمہ ہوں گی ۔آپ کی رضا سے خدا راضی ہوتا ہے جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیٹی سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کا اعلان فرمایا تو اُس وقت سیدہ حضرت زینب کی عمر مبارک دس سال ، سیدہ رقیہ کی عمر مبارک سات سال، سیدہ حضرت ام کلثوم کی عمر مبارک چھ سال اور حضرت سیدہ فاطمہ کی عمر مبارک پانچ سال تھی ۔ یہ سب شہزادیاں اپنے بچپن کے سنہرے دور سے گزر رہیں تھیں۔

جب بھی اپنے والد ماجد سے مشرکین مکہ کی زیادتیوں اور بد سلوکیوں کے متعلق کوئی بات سنتیں تو بے چین ہو جاتیں ۔تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام صاحبزادیاں عنفوان شباب میں ہی وصال بحق ہو گئیں بوقت وصال سیدہ حضرت زینب کی عمر مبارک اکتیس سال’ سیدہ حضرت رقیہ کی عمر بائیس سال ‘سیدہ حضرت ام کلثوم کی عمر مبارک اٹھائیس سال اور سیدہ فاطمہ کی عمر مبارک چھبیس سال تھی حضرت فاطمہ کیونکہ سب سے چھوٹی تھیں اور زیادہ عرصہ بابا جان کے سایہ رحمت میں رہیں آپ چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھیں جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے فاطمہ میری جان کا ٹکڑا ہے سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر نمازفجر کے بعد سیدہ کے گھر جا کر آواز دیا کرتے تھے اور فرط مسرت سے فرمایا کرتے تھے کہ خدا نے تمھیں ہر طرح کی گندگی سے پاک کر دیا ہے ۔خدا کے نزدیک سیدہ فاطمہ کا بہت بڑا مقام تھا بار بار یہ دیکھا گیا کہ جب حضرت سیدہ نماز میں مشغول ہوتیں تو فرشتے ان کے بچوں کی نگہبانی کیا کرتے ‘جھولا جھلاتے اور جب آپ سو جاتیں یا قرآن مجید کی تلاوت فرماتیں تو فرشتے ان کی چکی پیسا کرتے آپ تھیں ہی بہت عظمت والی جب بچی تھیں تو تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخم دھویا کرتی تھیں اُنہیں حوصلہ دیا کرتیں تھیں ۔ جب لڑکی اور بیوی بنیں تو اپنے وقت کے سب سے بہادر شخص شیر خدا کو زرہ بکتر پہناتی تھیں اور جب خاتون اور ماں بنیں تو تاریخ عالم کے سب سے بڑے شہید کی پرورش کیا کرتی تھیں

سیدہ فاطمہ جس نے زندگی سے معاشرے سے لوگوں سے عمر بھر کچھ نہیں مانگا نہ لیا بلکہ زندگی کے ہر دور میں صرف دیا ہی دیا ۔زمین اپنے محور پر گھومتی رہی دن رات میں ڈھلتے چلے گئے یہاں تک کہ تاجدار کائنات سیدہ فاطمہ کے بابا جان کا رفیق اعلی کی طرف جانے کا وقت آگیا۔جب بابا جان صاحب فراش ہوئے تو لاڈلی بیٹی کا دن رات کا چین ختم ہو گیا۔ سیدہ کے چہرہ مبارک پر اداسی اور غم کی پر چھائیوں نے ڈیرے ڈال لیے ۔ بات بات پر روپڑتیں رخساروں پر آنسوڈھلک آتے ۔ سید کائنات ۖکو جب بیٹی کی حالت ِ غم کا پتہ چلا وصال سے ایک دن پہلے قبل سیدہ فاطمہ کو اپنے پاس بلایا اور کان میں کچھ فرمایا تو سیدہ فاطمہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں ۔ رحمت مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دیکھا کہ لاڈلی بیٹی کی حالت غیر اور غم سے نڈھال ہو گئی ہے اور آنسو ساون کی برسات کی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہے تو پھر قریب بلایا اور کان میں کوئی اور بات کی تو لاڈلی بیٹی فوری ہنس پڑیں۔

ALLAH

ALLAH

حضرت عائشہ صدیقہ نے جب بعد میں وجہ پوچھی تو سیدہ فاطمہ نے فرمایا پہلی مرتبہ ابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اِس مرض سے اپنے خداکے پاس چلا جائوں گا تو میں رونے لگی تو دوسری مرتبہ بابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے خاندان میں تم سب سے پہلے آکر مجھ سے ملو گی تو میں خوشی سے ہنس پڑی۔وصال کے قریب جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درد اور بیماری سے بار بار بے ہوش ہو جاتے تو سیدہ فاطمہ اپنے بابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت دیکھ کر تڑپ جاتیں ‘جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا بے اختیار مبارک ہونٹوں سے نکلتا ہائے میرے باپ کی بے چینی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمھارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہو گا ۔ جب تاریخ عالم کی الم ناک ترین ساعت طلوع ہوتی اور محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رفیق اعلی کے پاس تشریف لے گئے تو لاڈلی بیٹی پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ‘عظیم ترین سایہ سر سے اُٹھ گیا’ شدت کرب نے بے حال کر دیا آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا لاڈوں سے پلی بیٹی یتیم ہو گئی۔

حالت غم میں لبوں پر یہ الفاظ بکھر گئے یااتباہ یا اتباہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق کے بلاوے کو قبول فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت میں اقامت فرمائی و اتباہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی خبر جبرائیل امین کو کون پہنچائے گا واہ اتباہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وحی کس پر لائے گا اے اللہ فاطمہ کی روح کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح سے ملا دے ۔ اے اللہ مجھے حضور اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدا ر نصیب فرما اے اللہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثواب سے دور نہ فرما اور روز قیامت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے محروم نہ کرنا۔ جب عاشقان رسول رحمت دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے بعد فارغ ہوئے تو سیدہ فاطمہ نے حضرت انس سے پوچھا کیا تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خاک ڈالتے اچھا معلوم ہوا یہ سننا تھا کہ صحابہ کرام دردِ فراق سے مثل ماہی بے آب تڑپ اٹھے ۔حضرت سیدہ شادی کے بعد جب بھی اپنے بابا جان سے ملنے آتیں تو جدا گانہ رنگ اور چہرے مبارک پر خوشی کے رنگ بکھرے ہوتے لیکن آج بابا جان کے جانے کے بعد جب بی بی پاک تصویر غم بنی لرزاں و ترساں حجرہ حضرت عائشہ میں داخل ہوئیں تو ایک تا زہ تربت تھی جو آنکھوں کے سامنے تھی ضبط کا بندھ ٹوٹ گیا دیوانہ وار بڑھ کر مٹی مبارک کو اُٹھا کر آنکھوں سے لگا یا ۔آنکھوں سے ساون بھادوں کی طرح آنسوئوں کی برسات شروع ہو گئی بابا جان کی کمی شدت سے محسوس ہوئی اور مبارک لبوں پر یہ اشعار مچل گئے۔

ترجمہ: جس نے ایک مرتبہ بھی خاک پائے احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونگھ لی تعجب کیا ہے اگر وہ ساری عمر کوئی اور خوشبو نہ سونگھے وہ مصائب جو مجھ پر ٹوٹے ہیں یہ مصیبتیں اگر دنوں پر ٹوٹتیں تو ایام راتوں میں تبدیل ہو جاتے ۔بی بی سیدہ فاطمہ حسرت و محبت سے مزار اقدس کو آنسوئوں بھری آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں کہ اچانک آپ کے مبارک ہونٹوں پر فاطمہ بنتِ الاحجم کے یہ اشعار آگئے۔ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لیے ایک ایسے پہاڑ تھے جس کے سائے میں میں پناہ گیر ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے چلچلاتی دھوپ میں چلنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں عزت و عظمت کی حا مل تھی اور وسیع بیا بانوں کو بلا خوف تنہا طے کر جاتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری قوت اور پناہ گا ہ تھے آج میں اتنی بے کس بے سہارا ہو گئی ہوں کہ کمترین دشمن سے بچائو کے لیے بھی فکر مند ہوں اور ظالم سے محفوظ رہنے کے لیے میرے پاس کوئی ڈھال نہیں سوائے اپنے دست ناتواں کے جب قمری کے ٹہنی پر بین سنتی ہوں تو پکار اُٹھتی ہوں کہ ہائے یہ صبح کیسی غمناک ہے۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر : پروفیسر محمد عبد اللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956