عشق اس بحر بے کراں جیسا

Ishq

Ishq

تحریر: شاز ملک
سن صاحبا ! انت سے بے انت کا سفر قطرہ قطرہ تیری یاد کی بارش جو میری آنکھوں سے برستی رہتی ہے اس سے میری روح میں نمی بھر گی ہے، جانے زندگی کو کیا کیا سے کیا کر گئی ہے، کبھی لگتا ہے دل پے ان دیکھا بوجھ دھر گئی ہے ؛ وجو د کی دیواروں پر ہر طرف تیرا ہی نام لکھ گئی ہے اور ذات گم گشتہ کی زمین میں ہجر کا غم بو کر تیرے ہی عشق کو دل میں گھر کر گئی ہے، میرا دل وجود ذات اور روح سب تیری ہی لگن میں مست و بے خود رہنا چاہتے ہیں۔

سنو صاحب کسی کو عشق زدہ کر کے ہجر بدذات کا کاسہ دل کے ہاتھوں میں پکڑا کر اسے دنیا کی کال کوٹھری میں قید کرنا کہاں کا انصاف ہے، تیرے در کا اسیر تیرے عشق کا فقیر یہ دل حقیر کیا پھر کسی اور کے در کو دیکھے گا بھلا؟ کس سے عشق دوبارہ کرے گا کسی خاک کے پتلے پر وہ کیا مرے گا، جو تیرے عشق کی ٹھنڈی آگ میں جل کر راکھ ہو جائے وہ بھلا خاک ہونے سے کیا ڈرے گا ؟ وہ سوختہ جان بھلا کب جینے کی چاہ کرے گا۔

جسے تو اپنی دھن لگا دے صاحب وہ تو بھرے بازار تیرے نام پر بن مول بک جاتا ہے ہنستے ہنستے سولی چڑھ جاتا ہے آتش نمرود میں کود جاتا ہے، یہ عشق دلسوز سے جانفزا کب بن جاتا ہے کوئی کیا جانے بس تو جانے یہ تو بن دیکھے کا سودا ہے صاحب یہاں سوچے کون اور سمجھے کیا، میں بھی تو تیرے عشق کے بازار میں بن مول بک گئی ہوں۔

Tear Eyes

Tear Eyes

تب سے دل فقیر اور روح تیری اسیر ہے سائیں ، میں کیا کروں ،جب سے روح تےیری اسیر ہے تب سے مجھے وجود کا اسیر نہیں ہونے دیتی ،تیری یاد میں کھو کر بھی دل کو دلگیر نہیں ہونے دیتی یہ تو بس تیری ہی چاہ اور راہ میں الجھی ہے اسکے اندر کتنی گرہیں تیری یاد کی لگی ہیں جنہیں یہ سجدے میں تیرے حضور کھلنے کی سعی کرتی ہے مگر تیرے حضور بس تن من کو جھکا روح کی دھیمی دھیمی سرگوشیاں سنتی رہتی ہے۔

آنکھیں وہ تو بس بارشیں برسا کر دل کا آنگن دھوتی رہتی ہیں کے کہیں وہ محبوب جو راحت جان و دل و روح ہے من کی جانب نگاہ پھر بیٹھے تو من کا میلا پن اسے دل کے معبد خانے میں آنے سے نہ روک دے ، وہ معبد خانہ جو بس اسکی لئے سجا رکھا ہے اسی کی یادوں کے پھولوں سے مہکتا ہے۔

وہ نظر کرم کی پھیرے تو بگڑی بات بنے ، الجھا بکھرا ٹوٹا وجود ایک ذات بنے اور پھر اسکے قدموں پی گر کر بس اک سجدہ عشق کی سوغات ملے اور پھر مدت ہجر بدذات کٹے، جسم خاک میں ملے۔

Heart

Heart

روح اگلے سفر کے پڑاؤ پر آن رکے، پھر چاہے صدیاں بیتے یا زمانے کس کو پرواہ، اور دل بس تیرے حضور تو سے ہوکی بات کرے سجدے میں اشکوں کی برسات کرے۔

سانسوں کو تیرے نام پر خیرات کرے یونہی تیرے قدموں میں گرے سجدے میں پڑے دن رات ڈھلے بس انت سے بے انت کا سفر جسکا کوئی انت نہ کنارہ۔

تحریر: شاز ملک