کچھ دیر ابھی

depressed

depressed

اپنی سولی کو اٹھاتے رہو کچھ دیر ابھی
رسم الفت کی نبھاتے رہو کچھ دیر ابھی

غم کا احساس جگانے کے لئے آج کی شب
جام پہ جام پلاتے رہو کچھ دیر ابھی

اس محبت کی صداقت پہ کرے کون یقیں
کوئی افسانہ سناتے رہو کچھ دیر ابھی

ہم کو اس درد و اذیت سے سکوں ملتا ہے
زخم پہ زخم لگاتے رہو کچھ دیر ابھی

ظلمتِ شب میں ستاروں کا گماں ہوتا ہے
اشک پلکوں پہ سجاتے رہو کچھ دیر ابھی

جانے کب وقت سلاڈالے ہمیشہ کے لئے
جاگتے اور جگاتے رہو کچھ دیر ابھی

زلزلے روز کا معمول ہوئے جاتے ہیں
جسم کا بوجھ اٹھاتے رہو کچھ دیر ابھی

ہم بھی ساحل سے رہائی کی دعا مانگتے ہیں
ڈوبنے والو بلاتے رہو کچھ دیر ابھی

ساحل منیر