آواز دے ہمیں

ہم روحِ کائنات ہیں آواز دے ہمیں
یزداں کا التفات ہیں آواز دے ہمیں

اس شہرِ بد نصیب کی بے کیف بزم میں
رنگینیء حیات ہیں آواز دے ہمیں

صحرائے زندگانی کی تِشنہ فضائوں میں
اِک جامِ حادثات ہیں آواز دے ہمیں

صدماتِ ماہ و سال کو دل سے لگا کے ہم
محوِ تصورات ہیں آواز دے ہمیں

پھرتے ہیں دربدر تیرے وہم و گمان میں
آوارگانِ ذات ہیں آواز دے ہمیں

ساحل صلیبِ وقت پہ لٹکے ہیں آج بھی
تقدیسِ سانحات ہیں آواز دے ہمیں

Sahil Munir

Sahil Munir

تحریر: ساحل منیر