عشق عام ہوتا جا رہا ہے

Politics

Politics

تحریر: انعام الحق
ایک دوست نے لکھا ہے کہ آپ موجودہ سیاسی حالات پر کالم کیوں نہیں لکھتے؟ عرض ہے کہ میرے پاس فضول موضوعات پر لکھنے کے لئے وقت نہیں۔ موضوع اگر ’’پاکستانی سیاست‘‘ ہو تو سیاست ایک فضول ترین موضوع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں ووٹ بِکتا ہو وہاں سیاست نہیں ہوتی بلکہ انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ سماج کے پہلوئوں کو زیر بحث لائوں کیوں کہ تبدیلی ہمارے سماج کے لئے وہ دوائی ہے کہ اگر اس سماج کو فوراًنہ ملی تو یہ تڑپ کر مر جائے گا۔

موجودہ دور کا سب سے اہم موضوع یہ ہے کہ ہماری آنے والے نسل تیزی سے عریانی،گندگی اور لغویات کی طرف بڑھ رہی ہے۔میں اُن سیانوں اور بزرگوں کی تلاش میں ہوں جنہوں نے ہیر رانجا،سسی پنوں، سوہنی ماہیوال وغیرہ جیسے بے شرم کرداروں کو عشق اور محبت کی داستانوں سے منسوب کرکے سماج کے لئے نمونہ بنانے کی کوشش کی۔اُن بے شرم کرداروں کے قصے سُن کر سالہا سال سے ہماری نسل معاشقوں میں مگن ہوتی ہوئی بگڑ تی جارہی ہے۔

Love

Love

محبت کے نام پر جنسی حوس بھجانے کا نام عشق رکھا ہوا ہے۔لڑکی لڑکے کی بات نہ مانے تو وہ ناراض ہو کر نئی محبت کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔لڑکا لڑکی کی بات نہ مانے تو وہ نئے دروازے کی جستجو شروع کر دیتی ہے۔اوپر سے دور جدید ہے اور موبائل نے شوقِ اشتیاق اور ملنساری کو اور بھی آسان بنا دیا ہے۔ہمارے معاشرے میں گلی محلوں میں عشق کی داستانیں یوں خوار ہو رہی ہیں جیسے عوام سیاستدانوں کے ہاتھوں خوار ہو رہی ہے۔

یقین کریں کسی بھی گلی محلے میں چلے جائیں بچے جو ابھی سن بلوغت یہاں تک کہ ذہنی بلوغت کی عمر کو بھی نہیں پہنچتے موبائل ہاتھ میں پکڑے نہ جانے کیا کیا گُل کھلاتے دیکھائی دیتے ہیں۔میٹرک کلاس میں ہونے کے بعد اگر کسی کے پاس ایک آدھ گرل فرینڈ نہ ہوتو لڑکے اُسکا مزاق اُڑاتے ہیں اُسے طعنے مارتے ہیں۔جس کے پاس دو سہیلیاںہوں اُسے عام سمجھا جاتا ہے اور جس کے پاس دو سے زائد ہوں اُسے دوسروں سے بہتر جانا جاتا ہے۔یہی حال لڑکیوں کا بھی ہے۔کسی کو بیلنس لوڈ کروانے کے لئے رکھا ہوا ہے اور کسی کو کھانے پینے کے لئے اور اگر تیسرا ہے تو وہ شاپنگ کروانے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ لیکن ان بچوں کے والدین کہ منہ سے سُنیں تو اُنکے بچے تو بہت نیک، دیندار، نمازی، پرہیزگار ہیں اور ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہمارے بچے دوسروں کے بچوں سے بہت اچھے ہیں۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بدصورت لڑکی آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر یہ کہے کہ وہ بہت خوبصورت ہے۔

Training

Training

اب اگر بچوں کی تربیت کی بات کریں تو اکثر والدین یہ بھی کہتے ہیں کہ بچے باہر سے سیکھ کر آتے ہیں۔والدین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر آپکے بچے باہر سے سیکھ کر آتے ہیں تو باہر والے بچوں کو کون سیکھا رہا ہے۔عین ممکن ہے کہ آپکے ہی بچے گھر پر انٹرنیٹ،موبائل وغیرہ سے بُرائی سیکھ کر باہر جا کر دوسرے بچوں کو سیکھا رہے ہوں۔اس لئے ضرورت ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کی نہیں بلکہ بچوں کی مصروفیات اور میل جول پر نظر رکھنے کی ہے۔خاص طور پر اُس میل جول پر جو وہ سکول کی تعلیم کے بعد دینی تعلیم کے لئے مدارس میں کرتے ہیں۔

کیونکہ ہمارے علمائ آجکل مغربی قوموں سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں،جدت اور ترقی میں نہیں بلکہ عریانی اور بچوں کے ساتھ جبراً زیادتی میں۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن چھوٹے معصوم بچوں کے ساتھ مدارس میں زیادتی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔خُدارا اپنی آنے والی نسل کو بچانے کے لئے کُچھ وقت بچوں کے ساتھ بھی گزاریں اور بہترین والدین ہونے کا ثبوت دیں۔

Inam ul Haq

Inam ul Haq

تحریر: انعام الحق