محمود خاں اچکزئی اور افغان مہاجرین

Mahmood Khan Achakzai

Mahmood Khan Achakzai

تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ
وہ جو کہتے ہیں نا پہلے تولو پھر بولو بالکل درست کہتے ہیں۔ انسان کو اپنی زبان کا درست استعمال کرنا چاہیے۔ اسی زبان سے دنیا میں بہت کچھ ہوا اور ہو رہا ہے۔اگر زبان احتیاط سے استعمال کی جائے تو انسان مفاد کے ساتھ ساتھ معتبر بھی نظر آتا ہے۔ اگر بے احتیاطی سے بغیر سوچے سمجھے استعمال کی جائے تو انسان خسارے کے ساتھ ساتھ جاہل بھی سمجھا جاتا ہے۔کہتے ہیں کم بولنا عقلمندی ہے بالکل درست کہتے ہیں۔انسان اپنی زبان سے پوری دنیا میں دوست بھی بنا سکتا ہے اور دشمن بھی۔ خیر چھوڑئیے ہمارے ہاں تو اکثر لوگوں کی زبان پھسلتی رہتی ہے اور وہ بھی ملکی مفاد کے بر عکس اسے زبان پھسلن سے منصوب کرنا چاہیے یا پھر ملکی دشمنی سے؟گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک متنازع بیان پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا سامنے آیا۔

جناب نے افغان اخبار افغانستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پی کے افغانوں کا ہے اور افغان مہاجرین وہاں جب تک چاہیں رہ سکتے ہیں۔افغان مہاجرین کو اگر کسی دوسرے صوبے میں مشکلات ہوں تو وہ خیبر پی کے آکر بلا خوف و خطر رہ سکتے ہیں یہاں ان سے کوئی بھی پناہ گزین کارڈ نہیں مانگ گا۔کیونکہ یہ افغانوں کا علاقہ ہے۔پاک افغان سرحدی تنازع پر اچکزئی نے کہا کہ بہتر ہے کہ پاکستان اور افغانستان آپس میں مل کر معاملات کو حل کر لیں ورنہ امریکہ اور چین معاملات طے کر لیں گے۔

Afghan Refugees

Afghan Refugees

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود تمام پشتون بھی ایسے حالات پر افسردہ ہیں۔بعد ازاں جب انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے کہا کہ ان کے بیان کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا۔اور ایک نئی بحث شروع کروا دی ۔کہا کہ میں نے صرف یہ کہاہے کہ خیبر پی کے کبھی افغانستان کا حصہ تھا۔محمود خان اچکزئی کے ایسے بیانات نے پاکستان میں کھلبلی مچا دی خیبر پی کے حکومت اور عوام نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہیں ایسے بیانات دیتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔خیبر پی کے صرف پاکستان کا ہے۔اور اس کے بغیر پاکستان کو مکمل تصور کیا ہی نہیں جا سکتا۔٧٤٩١ کے ریفرینڈم میں خیبر پی کے کے لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا نہ کہ افغانستان کے حق میں۔پھر ایک پاکستانی قومی اسمبلی کے رکن کی طرف سے ایسے بیانات آنا باعث تشویش ہے۔

انہوں نے تو سیدھا سیدھا پاکستان میں سے ایک صوبے کو کاٹ ہی دیا اور افغانیوں سے منصوب کرنے کی کوشش کی ایسے میں انہیں غدار کہنا ہی بہتر ہے۔موصوف متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور موجودہ رکن بھی ہیں موصوف کے بھائی بلوچستان کے گورنر اور رشتے دار وزیر بھی ہیں۔جناب نے ایسا کام کیا کہ جس پلیٹ میں کھایا اسی میں چھید کرنے کی کوشش کی موصوف نے رکن اسمبلی بنتے ہوئے حلف اٹھایا تھا کہ وہ ملکی بقاء و سلامتی کا خیال رکھیں گے۔ مگر انہوں نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی اور ملکی بقاء کو ڈبونے کی کوشش کی۔جناب کہتے ہیں جی کہ خیبر پی کے افغانیوں کا ہے اور انہیں یہاں سے کوئی نکال نہیں سکتا۔شاید انہیں یاد نہیں کہ پاکستان نے انہیں افغان مہاجرین کو پینتیس سال سینے سے لگا کر رکھا افغانیو کو آزادانہ زندگی بسر کرنے دی یہاں افغانیوں نے کاروبار کئے اور بہت سے کاموں میں شرکت کی افغانیو کو مختلف فورمز پر جابز دی گئیں۔

Afghanistan and Pakistan

Afghanistan and Pakistan

اگر اتنی زیادہ خدمت کے باوجود پاکستان انہیں اپنے وطن کو جانے کا کہے تو پاکستان برا۔شاید اچکزئی کو یاد نہیں جب ہندوستان میں انگریزوں کا قبضہ تھا تو مسلمانوں پر ظلم و ستم کئے جاتے تھے ۔مسلمانوں کا ایک گروہ گزشتہ وقت کے افغان حاکموں سے رابطے کے بعد اس نیت سے افغانستان کی طرف ہجرت کر کے گیا کہ وہ مسلمانوں کا علاقہ ہے ہمیں کچھ دیر یا عرصہ رہنے دیں گے مگر افغانیوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بارڈر پر روکے رکھا اور اندر جانے کی اجازت نہ دی وہ مسلمان جو اپنا سب کچھ بیچ باچ کر گئے تھے وہیں بھوک پیاس سے مرنے لگے مگر افغانیوں کو رحم نہ آیا۔مگر پاکستان نے دنیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو اس لئے گلے لگایا کہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔

آج اگرچہ انہیں بھائیوں کی وجہ سے ملک میں دہشتگردی پھیل چکی ہے۔آج وطن پاکستان مشکلات کا شکار ہے تو افغانیوں کو چاہیے کہ جلد از جلد افغان مہاجرین کو اپنے وطن منتقل کریں۔یوں بار بار وقت کی توسیع مانگ کر معاملات کو لٹکانے کی نہیں بلکہ فوری حل کرنے کی کوشش کریں۔اور اچکزئی کو پاکستان کا غدار کہنا مناسب ہے شاید اچکزئی کو پاکستانی کی تعریف کا نہیں پتا۔پاکستانی وہ ہوتا ہے جو ہر لحاظ سے اپنے ملک کی حفاظت کرے کسی بھی طریقے سے وطن کو ٹھیس نہ پہنچائے بلکہ اس کے قول فعل سے پاکستان کے لئے محبت جھلکتی ہو۔اچکزئی سے بہتر وہ محب وطن سکھ عیسائی اور ہندو ہیں جو کہتے ہیں۔

ہمارا پیارا پاکستان اس پے جان بھی قربان۔ایسے بیانات کو نپٹنے کے لئے کوئی قانون ہونا چاہئیے۔بلکہ حکومت کو اچکزئی کے بیان پر ایکشن لیتے ہوئے انکی رکنیت قومی اسمبلی ختم کرنی چاہئیے بلکہ انہیں پاکستان سے چلتا کرنا چاہئیے تا کہ آئیندہ کوئی پاکستانیوں کو ٹھیس نہ پہنچائے۔اچکزئی جو کہ ملکی معاملات میں اگلی صفحوں میں نظر آتے ہیں انکی طرف سے ایسا بیان قابل مذمت ہے بلکہ اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

سلطان جی کچھ تو یہاں کیجئے
غداروں کو بھی کوئی سزا دیجئے

Zulqarnain Hundal

Zulqarnain Hundal

تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ