مسلمانوں سے مغربی ممالک کا سلوک

Barack Obama

Barack Obama

تحریر: محمد صدیق پرہار
ملائشیا میں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کی کانفرنس سے خطاب اور میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ داعش کا خاتمہ امریکہ کا حقیقی ہدف ہے اور وہ ایسا کرکے چھوڑے گا۔ اس سے پہلے طالبان اورالقاعدہ کا خاتمہ امریکہ کاہدف تھا۔امریکہ اپنے اس سابقہ ہدف میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے دنیا بخوبی جانتی بھی ہے اورسمجھتی بھی ہے۔عالمی برادری کوداعش کے خلاف متحدہ و کر کارروائی کرنی چاہیے۔

امریکی صدر نے واضح کیا ہماری جنگ کسی مذہب سے نہیں ہے تمام مسلمان نہیں ایک چھوٹا سا گروہ دہشت گرد ہے مٹھی بھر دہشت گرد پوری دنیا کو یرغمال نہیں بنا سکتے۔امریکی صدرباراک اوباما نے یہ جوکہا ہے کہ تمام مسلمان نہیں ایک چھوٹاسا گروہ دہشت گرد ہے۔اس ایک جملہ میں وہ مسلمانوں کے دہشت گردہونے کے امریکی موقف پرقائم ہونے کااعلان بھی کررہے ہیںاور مسلمانوں کے دہشت گردنہ ہونے کااعتراف بھی کررہے ہیں۔انہوںنے تمام مسلمان نہیں ایک چھوٹا سا گروہ دہشت گردہے کہہ کردہشت گردی کالیبل پھربھی مسلمانوں پر لگا دیا ہے۔

انہوںنے مسلمانوں کے گروہ کو ہی دہشت گردکہا ہے۔ان کایہ کہنا بھی غلط ہے کہ ان کی جنگ کسی مذہب کے خلاف نہیں۔ زبان سے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ان کی پالیسیاں مسلمانوں کے ساتھ ان کے رویے یہ ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ سمیت عالمی طاقتیں اوراکثرغیر مسلم ممالک مسلمانوں کوہی دہشت گرد سمجھتے ہیں۔نائن الیون اوراب پیرس میں دہشت گردوں کے حملوں کے بعد جس طرح مسلمانوں کو نشانے پرلیا گیا اس سے توواضح ہوتاہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادی ممالک مسلمانوں کوہی دہشت گرد سمجھتے ہیں۔

Syrian Refugees

Syrian Refugees

پیرس حملوں کے بعد امریکہ کی ٢٣ ریاستوں نے شامی پناہ گزینوں کو پناہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ان ریاستوں کے گورنروں نے کہا ہے کہ پیرس حملوں میں مبینہ طور پر شامی لوگ ملوث ہیں دہشت گردی کے پیش نظر پناہ گزینوں کواپنی ریاستوں میں جگہ نہیں دے سکتے۔ حالانکہ پیرس حملوں کے بعد اخباری رپورٹوں کے مطابق اب تک جتنے بھی دہشت گردوں کی شناخت ہوئی ہے ان میں سے ایک بھی شام کا باشندہ نہیں ۔ شناخت شدہ دہشت گرد تو خود پیرس اور بیلجیئم کے بتائے گئے ہیں۔ایک قومی اخبار میں پیرس سے خبر ہے کہ پیرس حملے کے تناظر میں کینیڈا کے سکھ کی تصویر کو ڈیجیٹل تبدیل کرکے ایک مسلمان خودکش بمبار بنا کر سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلا دیا گیا۔

تبدیل شدہ تصویر خود کش جیکٹ پہنے اور ہاتھ میں قرآن تھامے ہوئے ہے۔اس تصویر کواسپین کے سب سے بڑے روز نامے اوراوراٹلی کے دو اخباروں نے صفحہ اول پر شائع کیا۔اٹلی کے ایک ٹی وی نے اس تصویر کو نشر کیا ٹوئٹر پر بیس لاکھ سے زیادہ اس امیج کوپوسٹ کیا گیا بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق کینیڈا کے ایک سکھ کی تصویر کو ڈیجی ٹل انداز میں تبدیل کرکے سوشل میڈیا پر پیرس کے حملہ آوروں میں سے ایک ظاہر کرکے دنیا بھر کی نفرت اس کے حصے میں ڈال دی ۔تصویر نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کردیا کہ پیرس حملوں میں ملوث خودکش بمباروں میں سے ایک ہے۔ ہفتہ وار بریفنگ کے کے دوران ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ نے کہا ہے کہ ملک میں ہرقسم کی دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔انہوںنے کہا کہ اسلام امن وسلامتی کا دین ہے جبکہ دہشت گردی کو کسی مذہب کے ساتھ نہیں جوڑاجاسکتا۔

ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ داعش کے خلاف عالمی کوششوں میں پیرس حملوں کے بعد تیزی آئی۔ پیرس حملوں کے نتیجے میںکسی پاکستانی کو گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ ہم اسلام مخالف جذبات کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ایک اورقومی اخبارمیں پیرس سے ہی خبر ہے کہ پیرس میں دہشت گردی کے بعدلوگوںمیں پھراسلام مخالف جذبات ابھرآئے۔امریکہ میں بھی مسلم شہریوںکونفرت انگیزواقعات کاسامناکرنا پڑرہا ہے۔فرانس کاتھرٹین الیون امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے نائن الیون جیسا بن کرسامنے آیا ہے۔پیرس میں دہشت گردی پرساری مسلم دنیا کی مذمت اپنی جگہ آج بھرمغرب میںمسلمان شہریوں کو شک وشبہ کی نظرسے دیکھا جارہا ہے۔

United States

United States

امریکہ میں بھی اسلام کے خلاف جذبات ابھرآئے ہیں۔شامی نژاداوبید کا ئفو پناہ گزینوں کوامریکی شہرڈ ینور میں بسانے کے لیے کوششیں کررہے تھے مگراب یہ کام ناممکن ہوتاجارہا ہے۔عمل کسیربھی شامی نژادامریکی ہیں۔انہیں بھی اب اپنے حلیے کی وجہ سے خوف محسوس ہوتا ہے۔لوگ ان پرطرح طرح کے جملے کستے بھی ہیں۔پیرس حملوں کے بعد امریکہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی سمیت دیگراسلام مخالف واقعات سامنے آچکے ہیں۔جبکہ مسلمان شہری بھی خوف اوردبائو کاشکارہیں۔مساجد بندکرنے کے اعلانات بھی ہوچکے ہیں۔داڑھی کودہشت گردی کی علامت بنادیا گیا ہے۔

پاکستان سے مغربی ممالک میں جانے والوں کے جوتوںکی تلاشی بھی لی جاتی رہی ہے۔توہین آمیزخاکے شائع کرکے اورقرآن پاک کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کے جذبات کوبھڑکایا جاتا ہے اوراس پرمزیدستم یہ کہ اس سب گھنائونے فعل کوآزادی ء اظہارکانام دے دیا جاتا ہے۔اشتعال انگیزی بھی کسی جرم سے کم نہیں۔ مسلمانوں کے مذہبی سیاسی راہنمائوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ اپنی تقریروں میں لوگوں کواشتعال دلاتے ہیں جس سے مشتعل ہوکرکچھ لوگ دہشت گردی کرتے ہیں۔

مغربی ممالک میں بھی توہین آمیزخاکے شائع کرکے ، قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے اورشعائر اسلام کامذاق اڑاکربھی مسلمانوںکواشتعال دلایا جاتا ہے اس لیے مغربی ممالک بھی اشتعال انگیزی کرکے خود ہی دہشت گردی کوفروغ دے رہے ہیں۔یورپ کے قلب میں مسلمانوں کے زریں عہدحکومت کی یادگارجامع مسجدقرطبہ کوکلیسائے روم ویٹی کن کے دبائوپرگرجاگھرمیں تبدیل کرنے کی کوششیں عرو ج پرپہنچ گئیں۔سپین کی عیسائی حکومت نے تاریخی جامع مسجد قرطبہ کے مینارپرکلیسائی گھنٹیاںنصب کردی ہیں۔نمازاوراذان پرپابندی عائدکردی گئی ہے۔

Mosque

Mosque

کچھ دن بعد اس مسجد کو مکمل طور پر کلیسامیں تبدیل کرکے یہاں عیسائیوںکی عبادات شروع کردی جائیں گی۔دوسری جانب اسپینش حکومت کے اس اقدام نے مقامی اوردنی ابھرکے مسلمانوں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔اگرچہ اس پینی مسلمانوں کی تنظیم نے ١٩٨٠ء میں اس وقت کے کلیسائی پیشوا پوپ جان پال دوم اور٢٠٠٤ء میں پوپ بینی ڈکٹ کومتعدد تحریری درخواستیں دیں تھیں کہ اس تاریخی مسجد میں مقامی مسلمانوں کو نماز پنجگانہ کی اجازت دی جائے لیکن رواداری وتحمل وانصاف کے علمبرداردونوں عیسائی پیشوائوں نے ان درخواستوں کو مستر کر دیا تھا۔

ایک قومی اخبارمیں برسلزسے خبر ہے کہ برطانوی میڈیا کے مطابق پیرس کے بعد بیلجیئم کے دارالحکومت برسلزمیں دہشت گردی کے خدشات کے باعث سیکیورٹی انتہائی سخت ہے شہرکی سڑکوںپرفوج کے دستے گشت کررہے ہیںاورمبینہ دہشت گردکی تلاش شروع کردی گئی ہے۔بیلجیئم کے انسداددہشت گردی یونٹ نے برسلزکے نواحی علاقے کے ایک پٹرول پمپس پرموجودایمبولینسوں میںموجود٦ افرادکوحراست میں لے کرانہیںمتعلقہ پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا جہاں ان کے فنگر پرنٹس لیے گئے جس سے پتہ چلاکہ حراست میں لیے گئے٦ افراد پاکستانی نژادبرطانوی شہری ہیں۔

پولیس کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد مقامی زبان نہیں جانتے لیکن اس کے باوجودوہ ان سے مکمل تعاون کررہے ہیں۔دوسری جانب وسط امریکی ملک ہونڈراس کی سرحد پر تعینات سیکیورٹی حکام نے ملک میںداخل ہونے والے تین افراد کو حراست میں لے لیامقامی حکام کاکہنا ہے کہ تینوں افراد قانونی دستاویزات کے بغیرملک میں داخل ہوئے تھے ۔گرفتارکیے گئے افرادمیں سے دو پاکستانی شہریت کے حامل ہیں۔ جبکہ ایک شامی ہے۔ جنوبی کیرولائنامیں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوارہلیری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس مطالبے کی سختی سے مخالفت کی جس میںانہوںنے کہا تھا کہ پیرس حملے کے بعد پیداہونے والی صورت حال کے پیش نظرامریکہ میں مسلمانوںکاڈیٹا بیس بناناچاہیے تاکہ مسلمانوںکی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔

Muslim Are Not Terrorist

Muslim Are Not Terrorist

انہوںنے کہا اس طرح کے فیصلوں سے یہ تاثرجائے گاکہ امریکہ یہاں بسنے والے مسلمانوں کو تنہا کرناچاہتا ہے۔ یا پھر وہ اسلام مخالف ہے۔ افریقی ملک کے صدرالف اگوندے نے کہا کہ اپنے چہرے کومکمل طور ڈھانپنے اور قرآن کریم کادرس دینے والے مدرسوں کو بند کردیا جائے گا۔ مندرجہ بالاتما م خبروں اور رپورٹوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کو ہی دہشت گردسمجھا جاتا ہے۔امریکی صدر باراک اوباما واقعی تمام مسلمانوں کو دہشت گرد نہیں سمجھتے توانہیں اب ایسے اقدام کرنا ہوں گے جس سے یہ ثابت ہوکہ امریکہ تمام مسلمانوں کو دہشت گردن ہیں سمجھتا۔اب امریکہ میں مسلمانوں کو شک کی نظروں سے نہ دیکھا جائے اوران کے ساتھ امتیازی سلوک بھی نہ کیاجائے۔

سیکیورٹی کے پیش نظراگرباہرسے آنے والوںکی تلاشی لینا ضروری ہے تو صرف مسلمانوںکی ہی تلاشی نہ لی جائے بلکہ تمام مذاہب سے وابستہ لوگوںکی لی جائے۔ان کاکہنا تھا کہ داعش کومالی معاونت کی فراہمی ہرصورت روکناہوگی۔دہشت گردوںکی مالی معاونت ختم کرنے کے لیے سعودی عرب بھی تعاون کررہا ہے۔براک اوباماکاکہنا تھا کہ داعش سربراہ ابوبکرالبغدادی جہاںبھی ہواسے ڈھونڈ نکالیں گے اوردہشت گردتنظیم کے خوف کوجڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔داعش کوتباہ کرنا ہماراحقیقی مقصد ہے۔داعش کے خلاف جنگ میں سوسے زائدممالک حصہ لے رہے ہیں داعش کوختم کرکے دم لیں گے۔دہشت گردوں سے جنگ کسی مذہب کے خلاف نہیں ۔دہشت گردی کرنے والے مٹھی بھرلوگ ہیںدہشت گردی کے جواب میںانسانی حقوق کونظراندازکرنایاکسی سے تعصب برتنا داعش کی کامیابی ہوگی۔

صدرباراک اوباما نے کہا ہم وہ زمین ان سے واپس لے لیں گے جس پروہ اس وقت قابض ہیں۔ہم ان کے پیسہ حاصل کرنے کے ذریعے کوکاٹ دیں گے۔ہم ان کی لیڈرشپ کوپکڑیں گے۔ہم ان کے نیٹ ورک اورسپلائی لائن کوتباہ کردیں گے۔ان کاکہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردوںکے ساتھ کوئی نرمی نہیںبرتیں گے۔امریکی صدرنے پیرس حملوںکاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہوٹلوں، تھیٹرز اورریستورانوںپرہونے والے حملوںکوبرداشت نہیں کیاجائے گا۔یہاںپراوباما تمام مسلمانوں کے دہشت گردنہ ہونے کے اپنے بیان کی نفی کررہے ہیں۔اگروہ اس بات میں سچے ہوتے تویہ بھی کہتے کہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں پرہونے والے حملوںکوبھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔

Cordoba Mosque

Cordoba Mosque

اندلس میں مسجد قرطبہ کو چرچ میں تبدیل کیاجا رہا ہے مسلمانوں کی نما زپڑھنے کی درخواستوں کو بھی مستردکیاجاچکا ہے وہاں بھی پیرس کی طرح حملہ ہوجائے توالزام پھر بھی مسلمانوں کی طرف جائے گا۔یہ کوئی نہ دیکھے گا کہ اس کے اصل ذمہ دارکون ہیں۔اوباما تمام مسلمانوںکوواقعی دہشت گردنہیں سمجھتے توانہیں مسجد قرطبہ کی چرچ میں تبدیلی کی بھی مخالفت بھی کرنی چاہیے اوراس تاریخی مسجد کی بحالی میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہ انہوںنے کیا ہے اورنہ ہی کریں گے کیونکہ وہ کوئی ایسا کام کرناہی نہیں چاہتے جس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہو۔ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں کی بات بھی انہوںنے اپنے کسی فائدے یااس لیے کی ہوگی کہ کہیں مسلمان زیادہ چوکس نہ ہوجائیں اورہم ان کے خلاف جوکرنا چاہتے ہیں وہ آسانی اورچپکے سے کرگزریں۔

تمام مسلمان نہیں ایک گروہ دہشت گردی میںملوث ہے۔ہمارے بعض دانشور، تجزیہ نگاراورتبصرہ نگاراوباما کے اس بیان کو اس طرح سمجھ رہے ہوں گے کہ اوباما نے اب اعتراف کرلیا ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں۔حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ امریکی صدرکے اس جملہ کوآسان لفظوںمیں یوں سمجھ لیں کہ انہوںنے کہاہے تمام مسلمان دہشت گردنہیں تاہم مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔تمام مسلمان دہشت گرد نہیں کہہ کراوباما نے مسلمانوں اوران کے دشمنوںدونوںکوایک ہی جملہ میں یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ان کے حق میں ہیں۔ مسلمانوں کواب بھی امریکہ کی باتوںمیںنہیں آناچاہیے ۔ اوباما نے کہا ہے کہ ایک گروہ دہشت گردی میںملوث ہے۔

اس جملہ میںانہوںنے داعش کوایک گروہ کہا ہے حالانکہ وہ طالبان ، القاعدہ اوردیگر تنظیموںکوبھی دہشت گردقراردے چکے ہیں۔ایک گروہ کی بات کرکے انہوںنے مبہم اندازمیں بات کی ہے۔اس میںیاتووہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے پہلے جتنے گروہ دہشت گردی کررہے تھے اب وہ امن پسندہوگئے ہیں انہوںنے دہشت گردی کی کارروائیاں بندکردی ہیں۔یاوہ یہ بتا رہے ہیں کہ دہشت گرد گروہ ایک ہی ہے کبھی وہ طالبان یاالقاعدہ کے نام سے دہشت گردی کرتا ہے اورکبھی داعش کے نام سے۔

مسلمان ممالک کے سربراہوں،مذہبی اورسیاسی راہنمائوںنے پیرس حملوںکی مذمت کی ہے اورمسلمانوںکے تمام مسالک داعش کومسلمانوںکی تنظیم نہیں سمجھتے اور اسے خارج از اسلام قراردیتے ہیں۔اس کے باوجودبھی مسلمانوںکوہی دہشت گردسمجھا جا رہا ہے اوران کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔اوباما اپنی بات میں سچے ہیں تووہ امریکی پالیسیوںمیں ایسی تبدیلی کریں جس سے یہ ثابت ہوکہ وہ واقعی تمام مسلمانوںکودہشت گردنہیں سمجھتے۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمدصدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com