کاش

Marriage

Marriage

تحریر : اروشمہ خان عروش
شادی، شادی، شادی کیا سارے مسائل کا حل اسی میں آگیا ہے؟ ابھی تو میں نے میٹرک کیا۔ امی !مجھے آگے پڑھنا ہے، جلد ی ہو گی آپ کو اماں! مجھے نہیں، ماہم نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہ دیا۔ ماہم بیٹی! میری بات سنو، ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی ان کی زندگی میں پیا گھر سدھار جائے۔ بیٹا! تمھاری بڑی بہن اور بھائی کی شادی ہوگئی ہے تووہ خوشی خوشی اپنی زندگی میں مگن ہیں۔ میں چاہتی ہوں تمھاری شادی بھی کر دوں تاکہ سکون سے اپنے باقی دن گزار سکوں۔ ماہم بیٹی! اچھے رشتے آسانی سے نہیں ملتے۔ تقدیر کب ہار جائے اور والدین اپنی امیدوں کے ویران دریچوں میں حسرت و یاس سے جھانکتے رہیں ۔ ماہم کو ہار ماننی پڑی امی! آپ اداس نہ ہوں جیسا آپ چاہیں گی ویسا ہی ہو گا اور ماہم کی شادی طے کر دی گئی۔

بارات کی تیاریاں زور شور سے شروع ہو گیئں۔ امی ماہم کے پاس آئی ،بیٹی جو تقدیر میں لکھاہوتا ہے، وہی ملتا ہے۔ اب تم بھی اپنی تقدیر سے سمجھوتا کر لینا اور اگر اس سلسلے میں مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کر دینا ۔ماں باپ ہمیشہ اچھا سوچتے ہیں آگے بیٹی کا نصیب۔ اماں! کیسی بات کر رہی ہیں اور ماہم امی سے لپٹ کر رونے لگی رخصتی کا ٹائم آگیا ماہم دبی دبی اور دل کی مٹھی میں بند خواہشات کا گلہ گھونٹے امی بھائی، بھابھی، بہن کی لاکھ دعائیںلے کر پیا گھر سدھار گئی۔

شروع شروع میں ماہم کو بہت پیار ملا مگر وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلنا شروع ہوئے۔ ماہم کا شوہر کاشف ایک جنونی اور جذباتی انسان تھا۔ اللہ نے اس کو چار بیٹیوں سے نوازا مگر بیٹا نہیں تھا اور بیٹا نہ ہونے کی سزاوار وہ ماہم کو سمجھتا تھا۔تم میری نہیں میرے ماں باپ کی پسند تھی۔ یہ وہ جملہ جو وہ اکثر سنتی رہتی تھی۔

Time

Time

وقت گزرنے کے ساتھ کاشف کا رویہ بدترین ہوتا جا رہا تھا۔ بات بات پہ جھگڑا روز کا معمول بن گیا تھا۔ اب تو ہاتھ بھی اٹھنے لگا۔خاوند نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر ماہم پر تشدد کرنا شروع کر دیا اور وہ آنسو بہا کر اللہ سے اچھے دنوں کی دعا کرتی رہتی ۔کاشف ایک نجی کمپنی میں جاب کرتا تھا اور کمپنی کے کاموں کے سلسلے میں گھر سے مہینوں باہر رہتا۔ ماہم سوچتی کاش اماں اتنی جلدی شادی نہ کرتیں۔کاش وہ پڑھ لکھ جاتی ،نوکری کر لیتی تو آج اتنی تنگی میں زندگی نہ گزار رہی ہوتی۔ اس بار تو حد ہوگئی ۔کاشف لوٹا تو بہت غصے میں تھا نہ جانے کس بات کا غصہ تھا اور ماہم کو مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا اور وہ اپنے بھائی کے گھر آگئی ۔میکے آنے کے کچھ دن بعد دروازے پر دستک ہوئی۔

ماہم تار پر کپڑے پھیلا رہی تھی۔ بھابھی سبزی بنا رہی تھی۔ ماہم کی چھوٹی بیٹی دروازے پہ گئی ۔امی کوئی یہ لفافہ باہر دروازے پہ رکھ گیا ہے۔ ماہم نے لفافہ کھول کہ دیکھا تو محبت کا وہ رشتہ جو لفظ ”قبول ہے ”سے شروع ہوا لفظ” طلاق طلاق طلاق ”پر آکے چکنا چور ہوگیا۔

ALLAH

ALLAH

کتنی ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف انسان تمام عمر اولاد کے لیے ترس رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف وہی انسان اولاد جیسی نعمت ہونے پر بھی ناشکری پر تلا ہوا ہے۔ بیٹا نہ ہونا اللہ کے اختیار میں ہے۔ عورت کے نہیں کب رکے گا یہ کرب اور درد کا سفر؟ اگر آج ماہم تعلیم یافتہ ہوتی تو دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کے بجائے اپنے پائوں پر خود کھڑی ہوتی اور ہمیں لفظ کاش نہ دوھرانا پڑتا۔

تحریر : اروشمہ خان عروش