شہید صحافت ملک محمد اسماعیل خان

Malik Mohammad Ismail Khan

Malik Mohammad Ismail Khan

تحریر : عبدالوحید خان، برمنگھم
میرے بڑے بھائی اسلام آباد کے سینئر صحافی ریذیڈنٹ ایڈیٹر پی پی آئی نیوز ایجنسی ملک محمد اسماعیل خان شہید صحافت کے ہم سے جُدا ہو ئے دس سال بیت گئے ہیں اُنہیں 31اکتوبر 2006کی ایک سیاہ رات دور آمریت میں ان کے دفتر کے قریب انتہائی سفاکی سے نامعلوم قاتلوں نے پُرا سرار انداز میں شہید کر دیا تھا اور پولیس کے مطابق اُن کی لاش گرین بیلٹ ایریا سے جہاں اس وقت نیشنل پریس کلب کی عمارت موجود ہے سے ملی تھی یکم نومبر کا دن میرے اور ہمارے سارے خاندان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا وہ ایک شریف النفس ، انتہائی ملنسار، شائستہ اور باوقار شخصیت کے مالک تھے ان کی شہادت کا دکھ نہ بھلائے جانے والا دکھ ہے اور ان کی زندگی کی حسین یادیں ہمارے لیے سرمایہ حیات ہیں دُعا ہے اللہ کریم ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے او ر ان کے قاتلوں ظالموں کو سخت عذاب سے دوچار کرے جنہوں نے ہنستے بستے خاندان کو اُجاڑ کر رکھ دیا تھا افسوس ہے کہ اُن کی شہادت کو دس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اسلام آباد پولیس قاتلوں کو گرفتار کر سکی اور نہ اُن کے قتل کے پس پردہ محرکات سامنے لا ئے جاسکے ہیں۔

اُن کی شہادت کا دکھ اپنے دامن میں سمیٹے شہید کی اہلیہ محترمہ بھابھی صاحبہ بھی اس سال جنوری میں خالق حقیقی سے جاملی ہیں جب کہ اس سے پہلے 2010میں والدہ محترمہ اور 2013میں بھائی جان اسماعیل خان شہید سے چھوٹے اور ہم چھوٹے بھائیوں سے بڑے بھائی شاعرو ادیب محمد خطیب خان بھی ان کی یادوں کو حرز جاںبنا تے ہو ئے اُن کی شہادت کے دکھ سے نڈھال ہو کر قاتلوں کی عدم گرفتاری اور انصاف سے محرومی پر گریہ و زاری کرتے ہو ئے داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیںمحمد اسماعیل 14فروری 1953کو ضلع اٹک (تب کیمبلپور)سے تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن اور اپنے علاقہ کی نامور سیاسی و سماجی شخصیت محمد یعقوب خان مرحوم آف دورداد کے ہاں پیدا ہو ئے والد صاحب مرحوم و مغفور کو جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخاب میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کھلم کھلا حمایت کی پاداش میں انتہائی نا مساعد حالات کا سامنا کر نا پڑا جسے آپ نے زمانہ طالب علمی میں ثابت قدمی سے برداشت کیا اور بچپن میں ہی خاندانی ذمہ داریاں کو خوب نبھایا اور سیاست و سیاسی گروپ بندی کو قریب سے دیکھا۔

حصول تعلیم کے بعد محمد اسماعیل خان نے 1976میں اٹک تب کیمبلپور سے صحافت کا باقاعدہ آغاز کیا شروع میں مختلف جرائد و رسائل میں سیاسی ڈائری نویسی کی اور پھر پی پی آئی اور روزنامہ تعمیر کے نامہ نگار بن گئے اور صحافت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا وہ اول و آخر ایک صحافی تھے اگرچہ انیس سو اسی کی دھائی کے اوائل میں والد صاحب مرحوم اور اہلیان گاؤں کے اصرار پر کونسلر منتخب ہو ئے اور خوب ترقیاتی کام بھی کرو ا ئے لیکن بہت جلد انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے بطور صحافی اپنا کام جاری رکھا حالانکہ اگر شہید چاہتے تو سیاسست میں بھی اپنا نام پیدا کر سکتے تھے مگر انہوں نے صحافت کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا یا اور کبھی بھی قلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی اپنے تیس سالہ صحافتی کیرئیر میں مختلف اخبارات و اخباری نیوز ایجنسیوں کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں بطور صحافی کام کیا پشاور میں پی پی آئی کے بیورو چیف رہے۔

Journalism

Journalism

اسلام آباد میں پی پی آئی کے سینئر سٹاف رپورٹر ، ڈیلی دی مسلم کے سٹاف رپورٹر ، روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ کے بیورو چیف ، روزنامہ مشرق کے کالم نگار و اداریہ نویس، آن لائن نیو ز ایجنسی کے پہلے چیف رپورٹر ، پی پی آئی کے بیورو چیف و ایڈیٹر خدمات سرانجام دیں ہمیشہ مثبت ، اصولی اور کھری صحافت کو فروغ دیا ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی، کبھی کسی خبر کی تردید نہیں دینا پڑی جو خبر بھی دیتے پوری ذمہ داری اور تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے کسی کو خوش آمد یا کسی کی پگڑی اچھالنے سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھا اور اکثر کہا کرتے تھے کہ صحافت لٹھ لے کر کسی کے پیچھے پڑجانے کا نام نہیں ہے جہاں بھی رہے غیر متنازعہ رہے اور صحافتی و سیاسی و سماجی حلقوں میں بہت زیادہ عزت و احترام حاصل کیا ملک کے تمام اہم سیاسی قومی راہنما ذاتی طور پر جانتے اور مانتے تھے لیکن آپ نے کبھی بھی کسی مقتدر سیاستدانوں سے اپنی ذات کے لیے دست سوال دراز نہیں کیا۔

البتہ اپنے پسماندہ علاقہ میں تعمیر و ترقی اور عوام کو سہولیات کی فراہم کے لیے مثالی خدمات سر انجام دیں شہید صحافت بہت اعلیٰ انسانی خوبیوں کے مالک تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اچھی شکل و صورت ، وجیہہ ، لمبا قد اور دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونے جیسی صفات سمیت بہت ساری انسانی خوبیوں سے مالامال کیا ہوا تھا نہ جانے وہ کون ظالم اور سفاک تھے جنہوں نے انتہائی بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے آپ کو شہید کر دیا۔
”حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا”

آپ نے ایک کامیاب گھریلو زندگی گزاری اور اپنے دونوں صاحبزادوں رضوان اسماعیل خان اور ذیشان اسماعیل خان کی تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھا اور انہیں اعلیٰ تعلم لوائی جبکہ پی پی آئی اور آن لائن میں رہتے ہو ئے بیسیوں نوجوانوں صحافیوں کو صحافتی اسرار و رموز سکھائے جو آج بھی راولپنڈی ، اسلام آباد کے مختلف صحافتی اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور آپ کو ہمیشہ عزت و احترام سے یادکرتے ہیں آپ ذاتی طور پر تعلقات نبھانے والے اور دوستوں کے کام آنے والے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہر خبر چھاپنے کے لیے نہیں ہوتی کچھ چھپانے کے لیے بھی ہوتی ہیں کسی کی آف دی ریکارڈ گفتگو کو خبر بنانے سے گریزکرتے تھے اور کہتے تھے کہ دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے آپ کو سیاسی جماعتوں اور سیاسی خاندانوں کے بارے میں گہری معلومات تھیں اپر پارلیمنٹ ،دفتر خارجہ ، سپریم کورٹ اور ایم آر ڈی سمیت مختلف سیاسی جمہوری تحریکوں کی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔

Supreme Court

Supreme Court

سپریم کورٹ کی پریس ایسوسی ایشن اور اسلام آباد کے سینئر صحافیوں ، مدیران اور سیاستدانوں نے آپ کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا اور آپ کی پیشہ ور اصولی صحافت کی تعریف کی شہید کی علاقہ کی تعمیر وترقی کے لیے سر انجام دی جا نے والی سماجی خدمات اور اعلیٰ صحافتی اصولوں کی پاسداری کے اعتراف میں اُس وقت کی اٹک کی ضلع اسمبلی سٹی یونین کونسل اٹک اور اپنے علاقہ کی یونین کونسل نے متفقہ قراردادوں کے ذریعے دورداد لنک روڈ اور پیپلز کالونی اٹک شہر کے چوک کے شہید محمد اسماعیل خان کے نام سے منسوب کیا اور بورڈ آویزاں کی اس وقت کی خیبر پختونخواہ اسمبلی میں تعزیتی قرارداد منظور کی جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے اس سفاکانہ قتل کی شدیدی مذمت اور اُن کی صحافتی خدمات کی تعریف کی۔

پیپلز پارٹی کی شہید سربراہ محترمہ بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، مسلم لیگ (ن) کے سربرا ہ میاں محمد نواز شریف سمیت اہم قومی سیاست دانوں نے ذاتی طور پر افسوس کا اظہار کیا اور قاتلوں کی سخت مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ محمد اسماعیل خان کی صحافتی خدمات کی تعریف کی جبکہ صحافتی برادری نے ہر سطح پر بھرپور احتجاج کیا اسلام آباد کی صحافتی تنظیموں کے ساتھ ساتھ قاتلوں کی گرفتاری و قتل کے پس پردہ محرکات سامنے لانے کا مطالبہ کیا آج دس سال گزر جانے کے باوجود نہ تو قتل کی سازش اور نہ ہی قاتلوں کی نشاندہی کی جا سکی ہے۔
”ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ”

Murder

Murder

آپ کو بے گناہ و بے خطا قتل کر کے جس جگہ آپ کی لاش پھینکی گئی اور جہاں آپ کا خون گرایا گیا اُس کی جگہ پر اب نیشنل پریس کلب کی عمارت موجود ہے جہاں راولپنڈی اسلام آباد کی صحافی برادری کے مسائل حل ہو رہے ہیں اور اس پریس کلب کی قوت ہی ان نہتے قلم کے مزدوروں کو سبق سکھانے والوں کی راہ میں رکاوٹ ہے مقام افسوس ہے کہ وطن عزیز سے آمریت کے خاتمہ ،جمہوریت کی بحالی ،پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے اور پھر مسلم لیگ (ن) کے اقتدار سنبھالنے اور ساتھ عدلیہ کی بحالی اور ایک عرصہ تک ملک میں جوڈیشل ایکٹویزم ہونے کے باوجود اس قتل کا کوئی سراغ نہ لگایا جا سکا ہے۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے

تحریر : عبدالوحید خان، برمنگھم