یادیں خوبصورت ہوتی ہیں

Memories

Memories

آئو کے دل کو کچھ بہلائیں

ان وحشتوں سے کہیں دور لے جائیں

چلو پرانے محلے کی سیر کر آئیں

سلام کریں سب کو

اور دیکھ دیکھ مسکرائیں

جہاں گلی کے کونے پر

یونہی گھنٹوں گزر جائیں

نا کوئی موبائل کی گھنٹی بچے

نا ایس ایم ایس دھیان بٹائیں

گرمیوں کی دوپہر میں

کلفی والے کی ٹن ٹن پر

دبے پائوں گھر سے نکل جائیں

اس آس پر ادھر ادھر پھرنا

کہ وہ لکڑی کا دروازہ آہستہ کھلے

جیسے اسے بھی کسی کے جاگنے کا اندیشہ ہو

پھر کانچ کی چوڑیوں کی کھنک سے احاطہ کھلے

چلچلاتی دھوپ میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چلے

اور تھوڑا سا پردہ ہٹے، دور جاتے کلفی والے کی صدا لگے

کن انکھیوں کا کوئی اشارہ ملے

کلفی لادینے کی استداعا کرے

جلدی جلدی بالوں کو انگلیوں سے سوارنا

کسی اور کے آجانے سے خوفزدہ سا

وہ جلدی میں پیسے پکڑتے

انگلیوں کا جذب ہوجانا

یوں مڑ کے بھاگنا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں

مگر وہ دل کا دھڑکنا کے رکا ہی نہیں

کلفی کے گرجانے سے چونک جاتا ہوں

میں ویسے ہی مسکراتے واپس آجاتا ہوں

سفید بالوں میں کنگی کرتے

آئینے کے سامنے خود کو پاتا ہوں

اداس جب بھی ہوتا ہوں

تو یونہی کبھی پرانے محلے میں چلا جاتا ہوں

یا پھر اسکول کی ڈیسک میں

کسی بچے کو ربر مار کر چھپ جاتا ہوں

خالد راہی