میانداد اور آفریدی آمنے سامنے

Miandad and Afridi

Miandad and Afridi

تحریر : سید انور محمود
محرم کے پہلےدس دنوں میں عام طور پر لوگ دوسری مصروفیات کو کم یا ترک کرکے مجالس، جلوس میں شرکت اور واقعہ کربلا پر بات کررہے ہوتے ہیں، ایسے میں سیاسی مصروفیات بھی بہت کم ہوجاتی ہیں، ایسا ہی اس سال بھی ہوا اور خاصکر6 محرم کے بعد سےسیاسی بیانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ اس اثنا میں پاکستانی میڈیا نے پاکستان کے دو نامور کرکٹ کے کھلاڑیوں جاویدمیانداد اور شاہد آفریدی کےآپس میں الجھ جانے کا پورا پورا فاہدہ اٹھایا اور اس خبر کو لیڈ نیوز بنائے رکھا۔ میانداد اور آفریدی کے آمنے سامنے آنے کا پس منظر یہ تھا کہ ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران میڈیا کے نمائندوں نے شاہدآفریدی سے یہ سوال کیا کہ جاویدمیانداد کا کہنا ہے کہ آپ پیسوں کے لیے اپنا الوداعی میچ چاہتے ہیں جس پر شاہد آفریدی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘جاوید میانداد کو ساری زندگی پیسوں کا مسئلہ رہا ہے۔ شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے کرکٹر کو ایسی چھوٹی بات نہیں کرنی چاہیےتھی۔ یہی فرق عمران خان اور جاوید میانداد میں تھا’’۔ شاہد آفریدی کے اس بیان کے بعد جاوید میانداد نے ایک نجی ٹی وی چینل پر شاہد آفریدی پر تنقید کرتے ہوئے مبینہ طور پر ان پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آفریدی اپنی بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ انہوں نے میچ نہیں بیچے۔

یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جاوید میانداد جو پاکستان کے بہت سینیر اور لیجنڈ کرکٹر ہیں اپنے سے بہت جونیر شاہدآفریدی کے بہت زیادہ خلاف کیوں ہیں۔ مثلاً شاہد آفریدی نے بھارت میں ہونے والے 2016 کے ورلڈ کپ ٹی 20 میں کولکتہ میچ سے پہلے ایک پریس کانفرنس کی اورایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘ہندوستان کے لوگوں سے ہمیں بہت پیار ملا ہے اور اتنا پیار تو ہمیں پاکستان میں بھی نہیں ملا جتنا یہاں ملا’۔ یہ ایک طرح کا سفارتی بیان تھا لیکن اس بیان پر انہیں پاکستان بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، ایسا نہیں کہ سب نے انکی مخالفت کی ہو، لیکن سب سے زیادہ افسوس ناک تبصرہ پاکستانی کرکٹ کے لیجنڈ جاوید میانداد کا تھا جس میں انہوں نے شاہد آفریدی کے بیان کی مذمت کی تھی۔ انہوں ٹی وی شو میں بیٹھ کر شاہد آفریدی کو لعنت بھی دکھائی ۔ان کا کہنا تھا کہ شاہد آفریدی کے بیان سے انھیں ‘صدمہ اور تکلیف’ پہنچی ہے۔ سابق پاکستانی کپتان اور موجودہ سیاستدان عمران خان نےایک بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ جاوید میانداد کے بیان سے اتفاق نہیں کرتے۔ جاوید میانداد ایک کرکٹر رہے ہیں سیاست دان نہیں لہذا ان کو شاہد آفریدی اور کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بولنا چاہیے تھا۔

جاویدمیانداد کے شاہد آفریدی پر میچ فکسنگ کے الزام کے بعد شاہدآفریدی نےجاویدمیاندادکےبیان پر وکلا سے مشاورت کےبعد قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ آفریدی نے سوشل میڈیا پر پیغام دیا کہ ‘جاوید میانداد کے ذاتی حملے کافی عرصہ برداشت کئے لیکن ہرکسی کے برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ آفریدی کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا اس پر افسوس ہے لیکن میانداد کے رویے پر ان کا ردعمل فطری تھا’۔ کرکٹ کے سابق کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ شاہدآفریدی کو اپنی پوزیشن کلیر کرنے کےلیے لازمی عدالت میں جانا چاہیے۔ جاویدمیانداد اور شاہد آفریدی کے درمیان الفاظ کی جنگ کے دوران پی سی بی کے سابق چیئرمین جنرل توقیر ضیاء اور سابق کپتان وسیم اکرم نے دونوں کے درمیان مصحالت کرانے کی کوشش کی تھی۔ ان تمام حالات کے بعد جاوید میانداد کی طرف سے ایک بیان دیا گیا جس میں انکا کہنا تھا کہ ‘شاہدآفریدی میرےہاتھوںہی پروان چڑھاہے،اس کے بیان نے میرادل بہت دکھایاہے،پھربھی بڑا ہونے کے ناطے میں نے شاہدآفریدی کو معاف کردیا ہے’۔

Javed Miandad

Javed Miandad

جاوید میانداد کے اس بیان کے بعد شاہدآفریدی کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ ‘اپنے ملک کے لئے کھیلنا ان کے لئے اعزاز کی بات ہے وہ کبھی اپنے ملک کو نہیں بیچ سکتے۔ جاوید میانداد کے الزامات سے انہیں، ان کے گھر والوں اور پرستاروں کو تکلیف پہنچی ہے۔ ان کے دل میں جاویدمیانداد کی بہت عزت ہے، جاوید میانداد نے انہیں معاف کردیا ہے جس پر وہ ان کے شکر گزار ہیں، لیکن اگر انہوں نے اپنا الزام واپس نہ لیا تو وہ خود کو کلئیر کرانے کے لیے عدالت جائیں گے’۔ آفریدی کی طرف سے الزامات واپس لینے کے مطالبے پر جاوید میانداد نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ابھی کسی معاملے پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا تاہم کسی سے ڈرنے والا نہیں اور اگر شاہد آفریدی کی جانب سے میچ فکسنگ الزامات پر نوٹس ملا تو اس کا ضرور جواب دونگا۔ جبکہ ایک اخبار نے اپنی ویب سائٹ پر ایک سروے میں ایک سوال پوچھا تھا کہ ‘کیا میانداد کی جانب سے آفریدی پرلگایا جانے والا میچ فکسنگ کا الزام درست ہے؟’۔ اس سروئے میں جواب ‘ہاں’ یا ‘نہیں’ میں دینا تھا ، جس کے جواب لوگوں کی ایک معقول تعداد نے دیے۔ رزلٹ کے مطابق 71 فیصد لوگوں نے شاہد آفریدی کی حمایت کی اور ‘نہیں’ میں جواب دیا جبکہ 29 فیصد کا جواب جاویدمیانداد کے حق میں ‘ہاں’ تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین شہریار خان نے اس سال ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے پہلے واضح طور پر کہا تھا کہ شاہد آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت صرف اس شرط پر سونپی گئی تھی کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے۔ جبکہ شاہد آفریدی نے بھی اس سال بھارت میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں انھوں نے ایک بیان میں اپنی کرکٹ جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کردی تھی۔کرکٹ کے بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ شاہد آفریدی اپنی ریٹائرمنٹ کے بارے میں مسلسل بیانات تبدیل کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ ان سے خوش نہیں ہے۔ ستمبر 2016کے بیچ میں پاکستانی میڈیا کے حوالے سے شاہد آفریدی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کو الوداع کہنے کے لیے انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے خود کہا ہے جو بالکل غلط ہے۔

بقول شاہد آفریدی کہ ابھی ان کی کرکٹ ختم نہیں ہوئی ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ ان کےلیے کسی الوداعی پارٹی کا انتظام نہ کرئے، ہوسکتا ہے کہ اگلے چند ماہ کے بعد کرکٹ بورڈ کو ان کی ضرورت ہوجبکہ شاید آفریدی ایک اچھا میچ کھیل کر ریٹائرمنٹ لینا چاہتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی سوچنا چاہیے کہ شاہد آفریدی 98 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں97 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں اور انہیں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں وکٹوں کی سنچری مکمل کرنے والا پہلا بولر بننے کے لیے صرف تین وکٹیں درکار ہیں، اگر شاہد آفریدی کا یہ ریکارڈ بنتا ہے تو یہ پاکستان کا بھی ریکارڈ ہوگا۔ کم از کم اس ریکارڈ کو حاصل کرنے کے لیے ہی حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شاہد آفریدی کو چانس دینا چاہیے تھا۔آخر میں اپنے دونوں مایہ ناز کھلاڑیوں جاوید میانداد اور شاہد آفریدی سے یہ درخواست ہے کہ اپنے آپس کے اختلافات کو ختم کریں، کیونکہ آپ دونوں جو اس وقت ایک دوسرئے خلاف بیانات دئے رہے ہیں ، اس سے صرف اور صرف پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے۔ لیکن اگر دونوں اپنے آپ کو صیح سمجھتے ہیں تو عدالت کا رخ کریں اور میڈیا میں ایک دوسرئے کے خلاف بیان بازی نہ کریں۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر : سید انور محمود