نقل مکانی کر کے افغانستان جانے والے قبائلیوں کے لیے انتباہ

Afghanistani Migration

Afghanistani Migration

شمالی وزیرستان (جیوڈیسک) جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہونے سے قبل جہاں لاکھوں قبائلی نقل مکانی کر کے خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، وہیں ہزاروں قبائلی سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے پولیٹکل ایجنٹ کامران آفریدی نے افغانستان میں پناہ لینے والے قبائلیوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ جلد اپنے علاقوں میں واپس آجائیں بصورت دیگر ان کی قبائلی حیثیت ختم کر دی جائے گی۔

جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہونے سے قبل جہاں لاکھوں قبائلی نقل مکانی کر کے خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، وہیں ہزاروں قبائلی سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔

اتوار کو شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ میں بات کرتے ہوئے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی کا کہنا تھا کہ افغانستان جانے والے جن قبائلیوں نے اپنا اندراج کروا رکھا ہے وہ جلد واپس آئیں۔ ان کے بقول ان افراد کے لیے غلام خان کے علاقے میں مرکز قائم کیا گیا ہے جہاں سے انھیں ان کے علاقوں میں واپس بھیجا جائے گا۔

ان افراد کی اکثریت خوست میں قائم عارضی کیمپوں میں مقیم ہے جبکہ ایک قابل ذکر تعداد کیمپوں سے باہر اپنے رشتے داروں کے ہاں مقیم ہے۔ پاکستانی عہدیداروں کے مطابق تقریباً تیس سے چالیس ہزار قبائلی اس وقت افغانستان میں ہیں جبکہ افغان حکام یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد بتاتے ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں کامران آفریدی نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ افغانستان میں مقیم قبائلیوں کے اندراج کے لیے عمائدین کے ذریعے رجسٹریشن فارم بھجوائے گئے ہیں اور اس میں فراہم کی گئی معلومات کی تصدیق کے بعد ان افراد کا باقاعدہ اندراج کر لیا جائے گا۔

ان کے بقول واپسی کا مرحلہ جولائی کے اواخر میں شروع کیا جائے گا۔ فوجی آپریشن کے باعث بے گھر ہونے والوں کی صوبہ خیبر پختونخواہ سے مرحلہ وار واپسی بھی شروع ہو چکی ہے لیکن قبائلی علاقوں میں واپس جانے والوں کی طرف سے شکایت بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں جن میں بنیادی اشیائے ضروری کی کمیابی کی شکایت بھی شامل ہے۔

پاکستانی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور ان شکایات کے ازالے کے لیے بھی تسلی بخش اقدام کیے جا رہے ہیں۔