ہلکا تشدد

Women Violence

Women Violence

تحریر: سید عرفان احمد:لاہور
سوال یہ ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ احساس کا ہے یا تشدد کا؟ پہلے قانون بنانے والوں نے حقوق نسواں کے نام سے بیوی پر ہاتھ اُٹھانے والے شوہر کو تھانے، عدالت اور پھر جیل تک جانے کا پیغام دیا پھر اسلامی نظریاتی کونسل نے شوہر کو بیوی پر ہلکا تشدد کرنے کی اجازت دے دی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ احساس و محبت پرقائم ہوتا ہے یا پھر تشدد پر؟ تشددمیاں کرے یابیوی ہر حال میں قابل مذمت سمجھا جانا چاہے۔ اس بحث میں آگے بڑھنے سے پہلے ذرہ قانون بنانے والوں اوراسلامی نظریاتی کونسل سے یہ نہ پوچھ لیاجائے کہ کیاملک میں اس وقت سب سے پیچیدہ مسئلہ میاں بیوی کاہے؟کیاتھانے،عدالتیں اورہسپتال میاں بیوی کے درمیان قانون کی دیوارکھڑی ہونے کے بعد ٹھیک کام کریں گے؟کیاکرپشن،اختیارات کے غلط استعمال،رشوت،سفارش،مہنگائی اوربیروزگاری کا میاں بیوی کے آپسی اختلافات کے خاتمے سے قبل کوئی حل نہیں؟کیاقانون بنانے والوں کوتھانوں،عدالتوں اورہسپتالوں میں ذلیل ہوتے عوام نظرنہیں آتے ؟کیااُن کومعلوم نہیں کہ کسی بھی سرکاری دفترمیں جائزکام بھی رشوت اورجھوٹ کے بغیرناممکن ہے؟

کیا اسلامی نظریاتی کونسل کونہیں پتاکہ ملک میں سودی نظام رائج ہے؟کیامولاناصاحب نے صدر مملکت کی فریاد نہیں سنی جس میں انہوں نے کہاتھاکہ سودکوجائزقراردینے کاکوئی طریقہ دریافت کیاجائے؟کیااسلامی نظریاتی کونسل کوملک میں پھیلی لاقانونیت نظر نہیں آتی ؟قانون بنانے والوں اوراسلامی نظریاتی کونسل میں فرق عورت اورمردکاہے،سیاسی حکمران عورت کوبااختیار بناناچاہتے ہیں جبکہ اسلامی لفظ استعمال کرنے والے مردکوعورت پرتشددکی اجازت فراہم کرکے اپنے موقف کودرست ثابت کرناچاہتے ہیں ،جبکہ حقیقت میں میاں بیوی کے رشتے میں نہ توکسی اسمبلی کے قانون کی ضرورت ہے اورنہ ہی مولانا کے فتوے کی۔

Law

Law

میاں بیوی کارشتہ محبت اوراحساس کی بنیادپرقائم ہوتاہے دنیا کاکوئی بھی شخص یاقانون میں بیوی کے درمیان محبت واحساس بحال کرسکتاہے اورنہ ہی ختم کرنے پرقادرہے،بیوی جوکم عمری میں اپنے ماں باپ،بہن بھائی اورگھرچھوڑکرشوہرکا گھرآبادکرنے سسرال چلی جاتی ،بھری دنیامیں بیوی کے پاس ایک ہی شخص بچتاہے اورپھروہ دن رات اپنے شوہراوردیگرسسرالیوں کوخوش رکھنے کی کوشش کرتی ہے ،شوہرکی ہرضرورت کاخیال رکھنے والی بیوی سے کوئی غلطی سرزدہوجائے توفورااُس پرتشددکس لہٰاظ سے جائزہے؟بیوی پرہلکے تشدد کافتویٰ دینے والے مولاناصاحب کیایہی اختیاراپنی بیٹی کے شوہرکودینے کیلئے تیار ہیں؟

مولانا صاحب کو بیوی پر تشدد کرنے کی اجازت دینے سے قبل یہ سوچ لیناچاہے تھاکہ کیایہ معاشرہ مکمل طورپراسلامی تعلیمات پرعمل پیراہے؟حیرت کی بات ہے کہ یہاں عورت کی ہروپ میں تذلیل ہورہی اوراُس پر تشددکاجوازپیش کرکے اسلام کے کھاتے میں ڈال دیاگیا،راقم کا اسلامی نظریاتی کونسل کومشورہ ہے کہ اللہ ،نبی ۖکے واسطے میاں بیوی کوتھانے اورعدالتوں میں پہنچانے سے قبل سودی نظام کے بارے میں سوچیں ،کیامولاناصاحب یہ نہیں جانتے کہ سودکالین دین کرنے والوں کیخلاف اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ ۖ نے اعلان جھنگ فرمایاہے؟سودکاگناہ درجنوں بارزناکرنے سے زیادہ ہے۔

Violence Against Women

Violence Against Women

بیوی یاشوہرسے کوئی غلطی سرزدہوجانے پر معافی کی گنجائش ہے جبکہ سودکالین دین کرنے والوں کیلئے کہیں معافی کاذکرنہیں ملتاجب تک کہ سودکالین دین چھوڑنہ دیں ۔میاں بیوی کے درمیان ہونے والے 95فیصد جھگڑوں کی وجہ مالی مشکلات ہیں اور عوام کیلئے روزگارکے بہترمواقع پیداکرناحکومت کی ذمہ داری کیااسلامی نظریاتی کونسل یاقانون بنانے والوں نے اس پہلوپربھی غورکیاہے؟ملک میں دن بدن بڑھتی مہنگائی اوربیروگاری کی روک تھام کیلئے بھی غوروفکر کی ضرورت ہے۔

سودی نظام نے امیراورغریب کے درمیاں ایسی بلنددیوارکھڑی کر رکھی کہ امیرلوگوں کومیاں بیوی کے رشتے پربھی اعتبارنہیں جبکہ غریب کے پاس اس رشتے کے سواکچھ بھی نہیں۔مولاناصاحب سیاست دانوں کوتونظر ہی نہیں آتاپرحیرت ہے کہ جناب بھی سودی نظام کے بجائے میاں بیوی کے رشتے کوختم کرناچاہتے ہیں ،بیوی شوہرپریاشوہربیوی پرتشدد کرے موقع کی مناسبت سے حل تلاش کیاجاتاہے جبکہ سودکے خاتمے کیلئے قومی سطح پرجہاد کی ضرورت ہے ،اسلامی نظریاتی کونسل واقع ہی ملک کی بہتری چاہتی ہے توفوری طورپرحکومت کو سودی نظام کے کاتمے کابل پیش کرے۔

Syed Irfan Ahmed

Syed Irfan Ahmed

تحریر: سید عرفان احمد:لاہور
marajdaeensyedirfanahmad@gmail.com
03214077241