دودھ کا دودھ اللہ کا نور

Milk

Milk

تحریر : چوہدری غلام غوث
گزشتہ دنوں قومی اخبارات میں تسلسل سے دودھ کے بارے میں انتہائی تشویشناک خبریں پڑھیں ،پنجاب فوڈ اتھارٹی نے لاہورکے داخلی راستوں پر ناکے لگا کر 34ہزار لیٹر جعلی دودھ تلف کیا۔جبکہ پنجاب اسمبلی میں دودھ میں لاشوں کو حنوط کرنے والا پاوڈراستعمال کرنے کی گونج سنائی دی تو سوچا اس انتہائی اہم ایشو پر قلم اٹھاؤں۔اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا۔ ”اور بے شک تمہارے لیے مویشیوں میں بھی مقام فکر ہے ہم ان کے جسموں کے اندرکی اس چیز سے جو آنتوں کے (بعض) مشمولات اور خون کے اختلاط سے (وجود میں آتی ہے) خالص دودھ نکال کر تمہیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے فرحت بخش ہوتا ہے”۔ترجمہ( عرفان القرآن سورة النحل آیت نمبر ٦٦) یہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ ہے۔کہ جو گوبر اورجون جیسی ناپاک چیزوں کے درمیان سے پاکیزہ اور فرحت بخش نعمت دودھ پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالی انسانوں کو فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔قرآن پاک میں اس کے علاوہ متعدد بار دودھ کا ذکر جنت میں نہروں کی صورت میں کیا گیا ہے ،دودھ جنت کا مشروب ہے۔

جبکہ احادیث مبارکہ میں بھی بار بار دودھ کی اہمیت اور قدرتی افادیت کا ذکر ملتا ہے ہمارے بڑے بزرگ اس گھرانے کو خوش بختی کی علامت قرار دیتے جس میں اولاد نرینہ ( بیٹا ) اور دودھ جیسی نعمت موجود ہوتی ۔دودھ کی نعمت کو اللہ کا نور قرار دیتے اور اپنے بچوں کی دودھ ،گھی اور مکھن سے پرورش پر نازاں رہتے مگرآج کی نسل اس عظیم نعمتِ خداوندی سے کافی حد تک محرومی کا شکار ہے جبکہ شہروں میں رہنے والے لوگ اصل دودھ کا ذائقہ تک بھول چُکے ہیں۔ دودھ میں پانی ملانا اس کی افادیت کو تو کچھ کم کر دیتا ہے مگر اصل دودھ تب بھی اپنے جوہر دکھاتا ہے۔ کیا کریں انسان نما بھیڑیوں کا جنہوں پانی ملانا چھوڑ دیا اب قدرت کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے مقابلے میں جعلی اور مصنوعی دودھ بنا رہے ہیں جس میں انسانی صحت کے لیے زہر قاتل اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔

بلاشبہ دودھ انسان کے لیے ضروری اور کمسن بچوں کے لیے مکمل غذا کی حیثیت رکھتا ہے دودھ قوت کا سر چشمہ اور انسانی جسم کی نشوو نما کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے ایک انسان دن میں جتنی خوراک استعمال کرتا ہے اس میں ایک تہائی حصہ دودھ کا ہوتا ہے خواہ یہ کسی بھی شکل میں ہو۔ پاکستان میں دودھ کی روائتی پیداوار ہی سب سے بڑا ذریعہ ہے گائے ،بھینس ،بھیڑ ،بکری اوراونٹنی سے قدرت کا یہ انمول تحفہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں بکثرت دودھ کی پیدوار ہوتی ہے پاکستان کو دودھ میں خود کفیل ملک تصور کیا جاتا ہے جبکہ اس کے باوجود اربوں روپے کا زر مبادلہ ہر سال بیرون ملک سے خشک دودھ منگوانے پر خرچ کیا جاتا ہے ۔ایک مستند سروے کے مطابق تقریباً 38ملین ٹن دودھ بھینسوں ،گائے ،بھیڑ ،بکریوں سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ 40 ملین افراد بلا واسطہ یا بالواسطہ دودھ کی پیدوار کے کاروبار یا صنعت سے منسلک ہیں ۔میرے پاکستان میں فی کس دودھ کا استعمال ایک تہائی لیٹر ہے مگر ترقی یافتہ ممالک میں یہ کھپت ایک لیٹر فی کس فی یوم ہے۔

شہروں میں فروخت کیا جانے والا دودھ 40 فیصد بھینسوں 50فیصد گائے اور باقی 10فیصد بھیڑ بکریوں اور اونٹنی وغیرہ کا ہوتاہے۔ بنیادی طورپر پاکستان زرعی ملک ہونے کی وجہ سے ہر کسان گھرانے میں تین سے پانچ تک گائے،بھینس ضرور پال رکھی ہوتی ہیں جن میں سے دو تین پورا سال دودھ دیتی رہتی ہیں ۔ ملک میں دودھ کی پیدوار کا نظام منظم نہیں ہے۔ کوئی شماریات ،پیمانہ میکانزم ایسا نہیں جو دودھ کو خالص بنیادوں پر کاروباری شعبہ قرار دے کر اس کی دیکھ بھال کرے دودھ کی زیادہ پیدوار دینے میں نیلی بار کی بھینس اور گائے کو دنیا بھر میں جو مقام حاصل تھا اب ان کی جگہ آسٹریلین گائے نے لے لی ہے۔ اب گائے کا دودھ باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر فارموں سے آتا ہے۔ دودھ پیدا کرنے کا روائتی طریقہ کار زوال پذیر ہوتا جارہا ہے۔

دودھ کی بڑی مقدار نے چائے اور کافی بنانے میں اپنی جگہ بنا لی ہے اس سے بچوں کے دودھ استعمال کرنے کی اوسط میں کمی آئی ہے دودھ میں 50فیصد پانی ،پندرہ فیصد ٹھوس غذائی اجزاء ہوتے ہیں ان میں 6فیصد چکنائی 3 فیصد مٹھاس اور پانچ فیصد لحمیات،نمکیات اور وٹامنز ہوتے ہیں تازہ دودھ کی گرمیوں میں قدرتی عمر تین سے چار گھنٹے اور سردیوں میں چھ سات گھنٹے ہوتی ہے یعنی اس دوران دودھ کی قدرتی تازگی برقرار رہتی ہے چاہے اسے گرم نہ بھی کریں فریج میں نہ بھی رکھیں تو خراب نہیں ہوتا ۔عالمی معیار کے مطابق پینے والے دودھ میں جراثیم کی ایک حد مقرر کی گئی ہے ڈیریز سے پیک کرنے والے کارخانے ایک ملی لیٹر دودھ میں پانچ ہزار سے پچاس ہزار بیکٹیریا والا دودھ پراسیس کر کے خریداری کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس دیگر مصنوعات بنانے والے ادارے پچاس ہزار سے پانچ لاکھ بیکٹیریا فی ملی لیٹر بھی قبول کر لیتے ہیں اس کا تجزیہ لیبارٹری میں کیا جاسکتا ہے اور اگر دودھ اس معیار پر پورا نہ اترے تو کارخانے دار دودھ خرید نہیں کرتے لہذا تاجر اور دودھ فروخت کے کاروبار سے جڑے لوگ اس دودھ کو فروخت کرنے کے لیے شہروں میں منتقل کر دیتے ہیں جبکہ اس دودھ کو خرابی سے بچانے کے لیے اس میں مختلف کیمیکلز ملائے جاتے ہیں۔

جب گائے بھینس سے دودھ حاصل کیا جاتا ہے تو اس میں جراثیم کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جونہی برتن میں دودھ ڈالا جاتا ہے تو گوالے کے ہاتھوں برتن کی سطح جانوروں کے آلودہ بالوں اور گو بر ،پیشاب کے ذرات کے ذریعے جراثیم دودھ میں شامل ہو جاتے ہیں۔دودھ بیکٹیریا کے لیے بہترین غذا ،اور رہائش گاہ ہوتی ہے یہ دودھ میں ہی رہتے ہیں پھر ان سے جو فضلات خارج ہوتے ہیں وہ بھی دودھ میں ہی رہتے ہیں دودھ میں تیزی سے پھیلنے والے یہ بیکٹیریا ،دودھ کی قدرتی مٹھاس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس مٹھاس کو اپنی توانائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے جسم سے تیزابی مادہ خارج کرتے ہیں جوں جوں تیزابی مادہ بڑھتا ہے دودھ میں کھٹاس پیدا ہونے لگتی ہے اور جب اس دودھ کو گرم کیاجائے تو وہ پھُٹیاں سی بن جاتی ہیں اور دودھ پھٹ جاتا ہے ۔دودھ کے تاجروں کو اس کی تازگی کی طبعی عمر کا پتہ چل جاتا ہے وہ اس دودھ کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے مختلف کیمیکلز جن میں میٹھا سوڈا یا فارملین شامل ہیں دودھ میں ملا دیتے ہیں بڑے پیمانے پر دس ہزار لیٹر دودھ میں ایک لیٹر کاسٹک سوڈا ملایا جاتا ہے اس کے لیے کئی قسم کے مہلک کیمیکلز بھی ملا دیئے جاتے ہیں جن میں مُردوں اور جانوروں کو حنوط کرنے ولا کیمیکل بھی شامل ہوتا ہے دودھ کے تازہ رہنے کی قدرتی مدت چار گھنٹے اوسطاً ہے۔

دور دراز علاقوں سے میلوں سفر کرکے شہروں میں لایا جانے والا کیمیکل دودھ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے ذریعے گھنٹوں مسافت اور موسمی شدت کے اثر انداز ہونے کے بعد اس دودھ کو اصل حالت میں تازہ رکھنے کے لیے ائیر کنڈیشن گاڑیاں کنٹینرز میں لانا چاہیئے لیکن تاجر حضرات اور گوالے دودھ ڈرمیوں میں ڈال کر برف ڈال دیتے ہیں جو کہ انتہائی مضرِ صحت اور ناقص ہوتی ہے ۔اس دودھ میں سب سے پہلے ایک تہائی پانی کی ملاوٹ ہو جاتی ہے جس سے دودھ میں آلودگی شامل ہو جاتی ہے۔دیہاتوں سے آنے والے دودھ میں نہروں کا پانی بھی ڈالا جاتا ہے پھر ساتھ ہی میٹھاسوڈا اور یوریا کھاد ڈالی جاتی ہے دودھ میں پانی ڈالنے کے ساتھ اس کو گاڑھا کرنے کے لیے سنگھا ڑے کا آٹا ،نشاستہ ،بورک ایسڈ ،بالصفا پوڈر اور زائد المعیاد سستے داموں فروخت ہونے والا خشک دودھ ملایا جاتا ہے ۔دودھ کو سفید چمکدار بنانے کے لیے اس میں ڈیٹرجنٹ پاوڈر اور محفوظ بنانے کے لیے فارملین ڈالی جاتی ہے چکنائی کی کمی کو دور کرنے کیلئے کوکنگ آئل ڈالا جاتا ہے غیرمعیاری ،انتہائی مضر صحت ،اور کیمیکلز کی آمیزش والا جعلی اور مصنوعی دودھ 70 سے0 10 روپے فی کلو فروخت کیا جاتا ہے۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں دودھ میں ملاوٹ کو بڑا جُرم نہیں سمجھا جاتا ۔دودھ میں ملاوٹ کے انتہائی مکرو ہ دھند ے کی آمد سے قبل مسلمانوں کی اکثریت دودھ کو اللہ کا نور سمجھ کر اس میں ملاوٹ کو گناہ تصور کرتے تھے اور گائوں میں تو زمیندار گھرانوں کی اکثریت دودھ کو اللہ کا نور سمجھ کر اس میں ملاوٹ کو ناقابل تلافی گناہ گردانتے تھے جبکہ گائوں میں تواکثر زمیندار گھرانے اسے داموں میں فروخت کرنا بھی نامناسب خیال کرتے تھے ضرورت مندوں کو مفت دودھ مہیا کرکے خوشی محسوس کرتے تھے،رمضان المبارک میں پورے گائوں میں سروے کروایا جاتا اور جن کے گھر دودھ کی نعمت سے محروم ہوتے پورا مہینہ ان کے گھر دودھ کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا۔ اب زمانے نے کتنی کروٹ لی ہے پورے ماحول کو کمرشلزم نے اپنی لپیٹ میںلے لیا ہے ہماری ساری روایتی اور اخلاقی قدریں پامال کر دی ہیں دودھ جیسی عظیم نعمت کے بدلے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو زہر پلا رہے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہم نے اپنا دھن من، ظاہرو باطن ،غیرت اور ایمان صرف پیسہ بنا لیا ہے اور یہ رویہ قُربِ قیامت کی علامت میں سے ایک ہے۔(جاری ہے)

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر : چوہدری غلام غوث