وزارت صحت، لٹیرے اور سستی ادویات

Medicine

Medicine

تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
بد قسمتی اس ملک و قوم کی وزارت اور عہدوں اور ایو نواں میں بیٹھے لو گ نہا یت ہی بے حس ،ظالم و مکار ،مفاد پر ست اور خود غر ض ہیں ملک کی 68سالہ تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں ،میرے بہت ہی چاہنے والے ایک دوست خا ندانی حساب سے تو مجھے ما موں کہہ رہے تھے البتہ عمر سے وہ مجھ سے کا فی بڑے ہیں جنا ب نے ایک درخواست کی تھی جنا ب گجر بر داری سے میرا شجر نسب ہے لیکن فرد واحد نے بر داری کا نا م استعما ل کر کے ذاتی مفاد اٹھا رہا اور عرصہ 35سال سے چیئر مین کی سیٹ پر قابض ہے جس سے پوری بر ادری کا سر شرم سے جھکا دیا ہے با ہر حا ل موصو ف کی بات پر لکھوں گا ایسا لکھوں گا کہ دوبارہ اپنے بارے میں شاہد لکھنے کا بھی نہیں بو لیں گئے سچ لکھنا میرا شیوا ہے اگر کسی کو برا لگتا ہے تو میں لا کھوں بار لکھوں گاآج میرا موضو ع میرے اپنے شعبہ یعنی صحت کے حوالے سے ہے میں لالا اورنگز یب سے درخواست کر ونگا ابھی مجھے تھوڑا وقت دیں پھر آپ کی طر ف بھی آ ونگا ایسا نہ ہوکہ آپ کی بر ادری والے اپنی تما م توپوں رخ سر دار یو سف کی بجا ئے میری طر ف نہ موڑ دیں اصل بات کی طر ف آ تے ہیں لو پھر قا رئین اکرام سنیں

ہمارے ہاںآسمان کو چھوتی مہنگائی کی وجہ سے ادویات غریب مریضوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں جبکہ بیرونی ممالک میں حتیٰ کہ انڈیا میں بھی انہی ادویات کی قیمتیں 1/4حصہ سے بھی کم ہیںمیٹریل وہی ہے جسے ہم بھی انہی ممالک سے درآمد کرتے ہیں جہاں سے انڈیا کرتا ہے پھرہمارے ہاں یہ کئی گناقیمتیں کیوں زیادہ ہیں کبھی ان حکمرانوں نے نہ نام نہاد سیاستدانوں نے اور نہ ہی عوام نے ادھر توجہ دی ہے۔کہ خون چوسنے والی جونکیں ہمارے ساتھ کہاں سے چمٹی ہوئی ہیں آپ سن کر حیران و پریشان ہو جائیں گے کہ اگر کسی دوائی کی قیمت بڑھانی مقصود ہوتو یہ اختیار مرکزی وزارت صحت کے پاس ہے اور وہاں ادویات بنانے والوں کی جس طرح درگت بنتی ہے اور وہاں جو کرپشن ہے وہ الامان و الحفیظ۔اگر آپ کو کسی دوائی کی قیمت20 پیسے زیادہ کروانی ہے تو اس کی رشوت بمعہ تمام سٹاف اور صاحبان اقتدار کا حصہ بقدر جسہ ملا کر5کروڑ روپے سے کم نہیں ہوگا۔

اب جبکہ اتنی رشوت دیکر دوائی کی قیمت بڑھے گی تو یہ ساری رقوم غریب مریض خریداروں کی جیب سے ہی نکلوائی جاتی ہیں یعنی اصل اجالے کی ڈاکو وزارت صحت ہے بعد میں جیب تراشی ،دنیا کے پلید ترین نظام سود کے علمبردارادویات ساز سرمایہ دارصنعتکار کرتے ہیں ۔حضرت علی کے فرمان کے مطابق اگر بھوک سے بلبلاتا، مرتا شخص چوری کرتا پکڑا جائے گا تو ہاتھ چورکا نہیںبلکہ حکمران کا کاٹا جائے گا۔اور یہ بھی فرمایاکہ جوبھوکوں مرتے ہیں وہ غلہ گوداموں پرپل کیوں نہیں پڑتے روزانہ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ فلاں غریب شخص یا عورت ادویات سے محروم جان سے ہاتھ دھو بیٹھی یا خود کشی کرلی تو ان کا مقدمہ قتل حکمرانوں اور مرکزی وزیر صحت و سیکریٹری ہیلتھ پر کیوں درج نہیں ہو تا؟

Bribery

Bribery

اس لیے نہیں ہو سکتا کہ کرپشن کے بدبو دار حمام میں سبھی ننگے نہاتے ہیں اب ان اوباش،بدمعاش،کرپٹ بیوروکریٹوں اور اسلام آبادکے تخت پر متمکن حکمرانوں پر ہاتھ کون اور کیسے ڈالے گا؟ویسے تو اگرتھانیدار حصہ دار نہ ہو تو چوری ہو ہی نہیں سکتی مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔تھانے بکتے ہیں اور غریبوں کی جیبوں سے ان کی خون پسینے کی کمائی جو نکلوائی جاتی ہے وہ اوپر تک جاتی ہے اس لیے آوے کا آواہی بگڑا ہوا نہیں بلکہ کرپشنی شیطان الف ننگا ناچ رہا ہے۔اور ہم اس کا ناچ دیکھ کرمحظوظ ہوتے ہیں کہ ہمیں بھی حصہ مل ہی جاتا ہے غریب خود کشیاں نہ کریں تو پھر کیا کریں۔میڈیکل سٹورزاور فارموسوٹیکل انڈسٹری کا بحران کیوں ہے

کیوںا یسے آرڈیننس جاری کیے گئے ہیں اب ضیاء الحق کے دور والے اسلامی قوانین کے تحت تھانوں میں پرچوں کے اندارج والا معاملہ ہو گا کہ اس دور میں تھانیدار مدعیوں کومطمئن اور ملزموں کو ڈراتے دھمکاتے تھے۔مدعیوں سے اسلامی دفعات لگانے کابھتہ لیتے اور ملزموں سے اسلامی دفعات کے تحت چالان مرتب کرنے کی دھمکی کارگر ہوتی تھی۔ملزم کوڑے مارنے جانے کے ڈر سے جیب کٹواتا تھاغرضیکہ غریب مدعی اور ملز م دونوں سے مال بٹورا جاتا تھا اسی طرح سے اب ڈرگ آرڈیننس کی دھمکی دے کرڈرگ انسپکٹر اور متعلقہ ضلع و اوپر والے افسران صحت کے وارے نیارے ہوگئے ہیں رشوت کا ریٹ کئی گنا بڑھ جائے گا

اسطرح ادویات کی جو قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی تو غریبوں کو علاج کروانے کے لیے اپنی کھال ہی کھچوانی پڑے گی۔ آجکل تو میرے بھائی ڈاکٹر صاحبان ادویات کے سیمپل تک بیچ کرمال ہڑپ کرجاتے ہیںمزید یہ کہ اسی کمپنی کی دوائی مریض کو نسخہ میں لکھ کر دیں گے جس نے حج ،عمرہ کروانے ،ائیر کنڈیشنڈ گاڑی لے کر دینے نئی کوٹھی بنوانے میں وافر حصہ ڈالنے یا دیگر مراعات کا وعدہ وعید کر رکھا ہو گا۔مصر کے بازار اور ہمارے” اُس بازار”کی طرح بولیاں لگتی ہیں

Pharmaceutical Industry

Pharmaceutical Industry

ہماری کمپنی کی دوائی لکھو تو یہ یہ عنایت کریں گے دوسری کمپنی والاکچھ بڑھا کراور اعلیٰ لا لچ دیکر ایڈ جسٹمنٹ کروالیتا ہے بقول میرے ہاتھ لگ رہا ہے مصر کا بازار دیکھو ۔ہر ڈاکٹر کو کرپشن کا یار دیکھو۔آجکل تو پرائیویٹ ہسپتال انڈسٹری کا روپ دھار چکے ہیں یعنی ان کی گھی یا شوگر مل ہی لگی ہوئی سمجھیں یہ تو مسیحائوں کا حال ہے۔تو زرداری ، شریف برادران ،الطاف اور عمرانی ساتھی وغیرہ اور کٹھ ملائیت کے علمبردارکیوں پیچھے رہیں وہ بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھو رہے بلکہ ڈبکیاں لگا اور نہارہے ہیں حکمران بمعہ وزارت صحت میڈیکل سٹورز پر تو حملہ آور ہو گئے ہیں مگر جعلی اور دو نمبر ادویات بنانے اور آگے سپلائی کرنے والوںکو کوئی نہیں پو چھتا کہ وہ منسٹری کولمبا مال لگاتے رہتے ہیں

یہ تو وہی ہوانہ کہ چرس پینے والا گرفتار اور بیچنے والے کو کوئی نہیں پو چھتا کہ اس کا مک مکا ہوا ہوتا ہے،کسی گھاس کے پلاٹ اور بازار میںتاش کھیلتے اور وقت کاٹتے غریب آدمی تو جوئے میں دھر لیے جائیں گے مگر افسران کے کلبوںمیںرات گئے تک جوا کھیلنے والوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کہ وہاں ” قانون ” نافذ نہیں ہوتا۔اب تو کوئی مسیحا ہی ملک پا کستان میں کر پشن لوٹ مار اور عوام کی بہتی گنگا کو کنارے لگا سکتا ہے

ورنہ ہمارے حکمرا نوں سے خیر و ملک و قوم کی خیر خوائی کی توقع کر نا وقت ضیائع کے علا وہ کچھ نہیں قا رئین اکرام میں تحر یر کر سکتا ہوں آپ پڑھ کر اخبار کو ردی کی ٹوکر ی کی نظر کر دئینگے تبد یلی والے ہمارے ملک کی جذباتی عوام کو ہر نئے الیکشن میں سبز باغ دیکھا کر ووٹ لے پا نچ سال عیا شیوں میں گزار کر دوسری سیا سی جما عت کو کر سی صدارت کا نمبر دے دیتے ہیں

Dr Imtiaz Ali Awan

Dr Imtiaz Ali Awan

تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان