عملِ استدراج اللہ کا قانون

Allah

Allah

تحریر : شاہ بانو میر
زندگی مختلف حادثات کے بعد آپ کو نئے سبق دیتی ہے اور آپ نے ان دلشکن حادثات سے گھبرانا نہیں بلکہ اگر آپ سچے ہیں اور باوجود سچے ہونے کے سامنے اتنی بھاری بھرکم بھِیڑ ہے کہ آپ کی آواز کو بھاری شور دبا دیتا ہے تو دل کو چھوٹا نہیں کرنا نہ ہی اپنے مِوقف سے ہٹنا ہے بلکہ ڈٹے رہنا ہے اور اللہ کے آسرے پر بہتر وقت کا انتظار کرنا ہے میرا یقینِ کامل ہے کہ اللہ پاک ہر دھند کو ہر دھول کو صاف کر کے دنیا کو وہ اصل چہرے دکھا دیتا ہے جو کسی ایک کے گرد گھیرا ڈال کر اجتماعی طور پے اسے برا ثابت کرنا چاہیں ـ وقتی طور پے بد دلی پھیلتی ہے دل کمزور ہوتا ہے اور چہروں کے ساتھ روّیے بدلتے دیکھ کر قوی سے قوی دل والا بھی ہمت چھوڑ دیتا ہے ـ

لیکن کیا کسی ایک ادارے کسی ایک مقصد کیلیۓ یہ قیمتی زندگی اللہ پاک نے دی؟
زندگی اصل میں تو اپنے والدین اپنے بیوی بچوں اور مخلص دوستوں کا حق ہے جسے ہر گز ہر گز ایسے اداروں ایسے لوگوں کیلئے ذرا بھر بھی پریشان نہیں کرنا چاہیے جو خود اپنی ذات سے بھی جھوٹ بول کر زندگی کو مصنوعی آکسیجن کے ساتھ زندہ رکھنے پر مجبور کیونکہ ان کی زندگی کا انداز ہی ایسا بن چکا ـ ایک متحرک ذہین با ہمت انسان اپنے آپ کو کبھی کسی ایک سوچ کے گرد نہ باندھے یہ زندگی نے سبق سکھایا ہے ـ خاص طور سے وہ ادارے جہاں نام و نمائش کی چمک دمک بہت زیادہ ہے وہاں پیسے کی اصل اہمیت ہے ـ اور ایسے اداروں میں ہم بہت متاثر ہو کر جاتے ہیں کہ فلاں کے اصول اس کی سوچ بہت شاندار لیکن مشکل وقت بتاتا کہ سب پانی کا بلبلہ ہے اصول پسند لوگ بھی مشکل وقت میں اپنے پیچھے جان دینےوالوں کو حوصلہ دینے نہیں آتے بلکہ وہ بھی دیکھتے کہ کس جانب سے انہیں اور ان کے ادارے کو سرمایہ کثیر مد میں مل رہا ہے کون ہے جو یورپین ممالک کے دوروں پر ان کو ان کے جاننے والوں کو سیرو تفریح کے ساتھ ساتھ قیمتی شاپنگ بھی ،کروا سکتا ـ

یہ سب چیزیں آج کے دور میں بنیادی ہیں ـ پاکستان کے کسی بھی معروف ادارے یا مشہور ہستی سے متاثر ہونے سے پہلے اس کے ساتھ کسی بھی ادارے میں شمولیت سے پہلے اپنا اپنی ہستی کا جائزہ لے لیں کیونکہپاکستان میں سائیکل چور کو سر عام پیٹ پیٹ کر لہو لہان کر دیا جاتا ہے ـ موٹر سائیکل چور کو مار مار کر جان سے مار دیا جاتا ہے اور پھر آگ لگا دی جاتی ہے ـ چور کو رنگے ہاتھوں چوری کرتے پکڑ کر اس کی وہ خاطر تواضع کی جاتی کہ توبہ لیکن یہی ہمارے شہری جو معمولی چوروں کے سامنے شیر ببر بنے ہوتے ان کے سامنے اس ملک کے بڑے بڑے چور لے آئیں جو اربوں کھربوں اس ملک کے لوٹ کر سر عام ٹیکس چوری کر رہے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی انہی کے سامنے دھڑلے سے بھتہ کے ذریعہ اور آیان علی جیسی کافر ادا حسیناؤں کے ذریعے بیرونِ ملک بھجواتے انہی لوگوں کو کہیں کہ اٹھائیں پتھر پھوڑیں ان کا سر بس ان سب کے ہاتھ نیم مردہ ہو کر لٹک جائیں گے کیونکہ یہ ان امراء کی حیثیت کو جانتے لاشعوری طور پے ان سے خائف اور ڈرے ہوئے ـ

Labor

Labor

یہی حال اداروں کا ہے ایک عام مزدور کیا چرائے گا کیا لوٹے گا اس کیلئے تو کڑی سزائیں رکھی جاتی ہیں کیونکہ سرمایہ دار سرمایہ سے دوستی کرتا ادارے بناتا اپنے کاروبار کے پھیلاؤ کیلئے بڑی بڑی رقوم بڑے بڑے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ لہٰذا اچھے برے ہر وقت ایک دوسرے کیلئے حاضر دوسری طرف عام مزدور اکیلا انسان حق حلال کی روزی کما کر بچوں کو مشکل سے پالنے والا جو یورپین دورے لوکل ٹرینوں کے سفر کی طرح نہیں کرتا ـ جو جائز نا جائز طریقے سے پیسہ کما کر مہنگے ریسٹورنٹس میں پاکستان سے آنے والے چھٹیاں گزارنے والوں کو کسی کار بمعہ ڈرائیور فراہم نہیں کر سکتا تو ایسے میں ایسے ورکر کی کیا اہمیت کیا فوقیت؟ اس نازک وقت میں وہ سوچتا ہے کہ اس کا باس اس کا رہنما اس کو دیکھے بُلائے پُچکارے لیکن یہ سب وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی ادارہ عام پاکستانی کیلیۓ ہو جہاں ملبہ ہی سارا دولت اور تعلقات کے ساتھ نئے نئے کاروبار شروع کرنے کیلئے اکٹھا کیا گیا ہو وہاں کسی عام بندے کی آواز کسی رہنما کسی باس کے کانوں تک نہیں جاتی ـ بے گناہ گناہ گار اور ریاکار پرہیز گار ثابت ہو جاتا ہے اور پھر جام ہاتھوں میں تھامے بلند قہقہوں میں مذاق اڑا کر کلین بولڈ کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے ـ

اداروں میں جب جھوٹے منافق بے ایمان حاوی ہو جائیں اور بڑے لوگ ان کے مرہون منت ہوں کیونکہ انہیں پاکستان سے کوئی غرض نہیں انہیں تو اس کرسی پے مضبوطی سے بیٹھے رہنا ہے جس پر صرف چند منافق جھوٹے اور ریا کار ہی بلیم گیم کھیل کر انہیں بٹھا کر اپنی کمزور معاشی حیثیت کو مضبوط کرنے میں عمر گزار دیتے لیکن انشاءاللہ ایسے لوگوں کا کبھی کچھ نہیں بنتا اللہ پاک عملِ استدراج سے انہیں ایسے گزارتا ہے کہ دیر لگتی ہے لیکن اللہ کی لاٹھی ہوتی بے آواز ہے اور انشاءاللہ ایسی پڑتی ہے کہ دن میں تارے نظر آجاتے ـ تباہی ایسے اداروں کا مقدر بن جاتی چھوٹی ذہنیت کے ساتھ ادارے بھی سُکڑتے اور چھوٹے ہوتے چلے جاتے ـ حتیٰ کہ وہ کہیں کسی کو بادی النظر میں دکھائی ہی نہیں دیتے اسی کو کہتے غرور کا سر نیچا انشاءاللہ

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر : شاہ بانو میر