سر آئینہ کوئی اور ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر: انجینئر افتخار چودھری
بڑا شور مچا دیا گیا کہ ہمارے شیر وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت کی پھٹیاں پن دی ہیں اور اسے دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔دو روز پہلے میں اعتزاز نقی کے پروگرام میں تھا میرے ساتھ بی اے ملک بھی تھے سابق سفارت کار۔ان کا کہنا تھا کہ جناب وزیر اعظم کو فی البدیع تقریر کرنی چاہئے جب کے میرا خیال تھا کہ انہیں لکھی ہوئی تقریر ہی کرنی پڑے گی ویسے بھی ایک ایسا وزیر اعظم جس کے خلاف اس کی عوام سڑکوں پر ہو اور وہ دنیا کے دس مایہ ناز کرپٹ حکمرانوں میں شمار ہوتا ہو ایسے شخص کو لکھی تقریر ہی کرنا چاہئے اس لئے کہ دوران تقریر اپنے گریبان پر بھی نظر پڑ سکتی ہے۔اور ضمیر کا کیا ہے کسی وقت بھی جاگ سکتا ہے اور اس وقت اس جاگے ہوئے ضمیر نے ان کی لکنت کو متآثر کر دیا تو لڑکھڑا جائیں گے اس لئے انہیں لکھی ہوئی ہی تقریر دی جائے۔تا کہ سبکی نہ ہو۔بس ایک سوال ہے وہاں مودی کیوں نہیں تھا؟اس سے پہلے ہمارے مندوب نے جو سوالات اٹھائے اس کا فورا جواب کیسے دے دیا گیا۔

کیا پرچہ لیک ہو گیا تھا؟کیا بھارت اور پاکستان کے مندوبوں نے ایک دوسرے سے سرجوڑ کر تقریریں تیار کیں تھیں؟ان کی تقریر کی ستائیش اب دھمال چودھری خرویز رشید اور ان کے ہمنوا مختلف چینیلز پر کرنا شروع ہو گئے ہیں اس میں کچھ سادہ لوح بھی شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ویسے تو ہم نواز شریف کے خلاف ہیں مگر جو تقریر انہوں نے کی ہے وہ لاجواب ہے۔گھرے دے بچھیاں دے دند نہیں دیکھے جاتے ہمیں علم ہے کہ انڈیا میں جا کر کہنے والے کہ ہم تو ایک جیسے ہیں ۔ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور آپ بھی اور ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں جس کو بھارتی پوجتے ہیں۔نفرت اچھی نہیں ہوتی لیکن بھارت کے ساتھ جو پیار میاں فیملی کو ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ہماری کبھی بھی یہ خواہش نہیں ہو گی کے سائتھ ایشیا ایک ایٹمی لڑائی کا میدان بنے لیکن طرز حکمرانی میں اپنے پیر و مرشد ضیاء الحق کا اتباع کر لیا جاتا تو کیا ہی مناسب تھا۔ تو خیال ہے کسی اور کا۔۔۔۔

Speech

Speech

پتہ نہیں شہید ضیاء نے کس ترنگ میں اپنی عمران کے نام کر دی وہ آنکھیں دکھاتے تھے یہ آنکھیں بچھاتے ہیں ویسے وزیر اعظم کی تقریر اور اسکول میں بچے کی تقریر میں فرق ہی کیا ہے۔ایسا بچہ جو چیخ چیخ کر اشعار سے مسجع تقریر کرتا ہے۔ہم جب اس بچے کی تقریر کی داد دے رہے ہوتے ہیں تو سچ پوچھیں ہم اس کے لئے تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں جس نے اسے لکھ کر دی ہوتی ہے۔میاں نواز شریف کی لکھی ہوئی تقریر سنجیدہ حلقوں میں اسی بچے کی تقریر سمجھ کر سنی گئی ہے لوگوں کو معلوم ہے کہ پنڈی نے دلیرانہ الفاظ دئے ہیں۔یہ موءقف پاکستان کے ان اداروں کا ہے جن کا مذاق ایک عرصے سے اڑایا جا رہا ہے کبھی اس افارے کے ایک ہیڈ کو ٢٤ گھنٹے ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے کبھی اپنے چیلوں، چانٹوں کے ذریعے اسمبلی کے فلور پر پگڑی اچھلوائی جاتی ہے۔سچ پوچھیں اس تقریر سے دوہرے مزے لئے گئے ہیں میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کے فلور پر جا کر کشمیر کی آڑ میں اپنے اوپر لگے ہوئے ان الزامات کو دھونے کی کوشش کی ہے جو جناب طاہرالقادری نے ان پر لگائے ہیں۔

٣٠٠ ہندوستانی ملازمین کی ایک طویل فہرست جو میڈیا کو پیش کی گئی ہے۔کیا یہ تقریر اس الزام کو دھوسکے گی؟کیا وزیر اعظم پر لگے الزامات جو پانامہ لیکس کے حوالے سے ہیں یہ تقریر ان کو غلط ثابت کرے گی؟ اور کیا جو گلو فورس تیار کی جا رہی ہے یہ میاں صاحب کو بچا لے گی؟اس تقریر سے ایک اور سوال بھی اٹھا ہے وہ ہے میاں صاحب کی نواسی کا جو میاں صاحب اور بیگم صاحبہ کے ساتھ بیٹھی دکھائی دیتی ہے؟کس کھاتے میں؟جناب وزیر اعظم کل بھوشن کے بارے میں آپ نے لب کشائی نہیں کی۔آپ نے بھارت سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ ہمارے پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد آپ بلوچستان کو توڑنے کے عملی اقدامات کر رہے ہیں براہمداغ کو بھارت کی شہریت کیوں دی جا رہی ہے؟میاں صاحب آپ نے تو جندال،ساڑ ھیاں اور آم پیش کرنے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے؟ ١٢٦ کے دھرنے سے کم از کم یہ فائدہ ہوا ہے کہ اب کہنا ہے پڑے گا کہ توخیال ہے کسی اور کا تجھے سوچتا کوئی اور ہے پس آئینہ کوئی اور ہے سر آئینہ کوئی اور ہے

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری