ایک غلط فہمی کا ازالہ

Flour

Flour

تحریر : راؤ خلیل احمد
پیچھلے کئی روز سے سوشل میڈیا پے آٹے میں پلاسٹک کی ملاوٹ کا چرچہ ہے۔یہ شروع فرانس سے چند سکھ نوجوانوں نے آٹے کے پیڑے کو پانی میں دھو کر دیکھایا اور آٹے میں موجود نشاستہ کو پلاسٹک سمجھا اور دعوہ کر دیا کہ پلاسٹک مکس ہے۔ پھر سپین سے قدیر خاں صاحب نے اسے سپین میں استعمال ہونے والے آٹے سے وہی سلوک کیا جو سکھوں نے فرانس میں کیا اور دعوہ پر مہر سبت کر دی اور پھر برطانیہ میں ایک بہن نے اسی پراسس کو آٹے میں نا جانے کس کس جانور کی چربی کے مکس اور پلاسٹک کے استعمال اور کینسر جیسی موزی مرض کا شاخسنہ کرار دیا۔پھر ایک بھائی نے کراچی سے فرانس کے سکھوں کے دعوہ کی سکہ بند تصدیق کر دی۔

ان دعو’وں نے عام آدمی کی زندگی میں خلل ڈال دیا عام آدمی جائے تو جائے کہاں۔ آٹے بن کھائے کیا۔

کسی نے سوچنے سمجھنے کی کوشش نہیں ایک پیڑے میں نکلنے والے مبینہ پلاسٹک کی ویلو ایک پیڑے آٹے سے کہیں زیادہ ہے ۔ اور کوئی بھی مکسنگ کرنے والا گھاٹے کا سودہ نہیں کرتا ۔ مکسنگ ہمیشہ گھٹیہ کی بڑھیا میں ہوتی ہے آٹے میں بیکری میں بچ جانے والے فالتو سامان کی مکسنگ تو ممکن ہے پلاسٹک کی نہیں۔

میں ایک ذمہ دار اور زمیندار شخص ہوں اپنے کھیت سے آگائی ہوئی گندم پسوا کر آٹا گوندھ کے حقیقت آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ آٹے کے پیڑے میں پلاسٹک نہیں وہ ایک اڈھیسو ہے جسے نشاستہ کہتے ہیں جو صحت کے لیے انتہائی مفید ہے ۔ گاوں میں مکئ کی روٹی کی تیاری میں تھوڑا گندم کا آٹا بائنڈنگ کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

کتابوں کی جلدیں بنانے کے لیے آٹے سے لئی بھی تیار کی جاتی رہی ہے۔پس آٹے کی اسی خاصیت کو پلاسٹک کہا جا رہا ہے۔ یاد رہے آٹے کی اسی کوالٹی کو ٹیکنیک سے استعمال کرتے ہوئے روٹی کی بہت سی اقسام جیسے ڈبل روٹی ، کھوانسوں پیسٹری، کیک اور ناجانے کیا کیا دنیا جہان میں تیار کیا جاتا ہے۔

ہاں یہ امر نا بھولنے نہ پائے کہ پلاسٹک ایک ہیومن میڈ دھات ہے جس کے نقصان کا اندیشہ دوسری خدا کی بنائی ہوئی دھاتوں کی نسبت زیادہ ہے۔

Rao Khalil

Rao Khalil

تحریر : راؤ خلیل احمد