خوش فہمیاں اور سیاسی جنازہ

Asif Ali Zardari

Asif Ali Zardari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
آج کل زرداری صاحب اور عمران خان کے حمایتی زبرست خوش فہمیوں کا شکار ہیں اور نواز شریف کی تو پورے ملک میں ویسے ہی “بلے بلے “ہے۔زرداری صاحب کے بیرون ملک سے کئی سال کے خود دیس نکالے اور ملک بدری کے بعد اچانک وارد ہو جانا کسی ڈیل کا نتیجہ تو شاید ہو گا ہی مگرتدبیر کند بندہ تقدیر زندخندہ کہ آدمی تدبیریں سوچتا اور اس پر عمل کرتا ہے مگر اس کی ان تدبیروں پر تقدیر ہنس رہی ہوتی ہے کہ اب آپ ہی اپنے دامن میں صیاد آن پھنسے گا اور وہی ہوا شریف برادران کا پانامہ لیکس والا معاملہ آڑے آرہا ہے کہ وہ مخالفانہ قوتوں کی طرف سے پے در پے واروں سے زخمی ہوئے بلبلانے پر مجبور ہوچکے ہیں اور زرداری اور ان کے پیارے جیالوں کو بھی مخالفانہ باتیں کرتے ہوئے خود ساختہ اپوزیشن بن جانے کی سہولت دے رہے ہیں ان کا صرف ایان علی والا مطالبہ ہی پورا نہیں ہوا بلکہ شرجیل میمن بھی بیرون ملک سے نعرہ زن ہوتے ہوئے ایسے آئے ہیں جیسے کوئی ملک کے دشمن کو زیر کرکے فاتح کے طور پر آتا ہے زرداری صاحب کے سبھی مقدمات سرے محل،وکی لیکس اور سوئس بنکس ، ان کے قریبی ساتھیوں گیلانی راجہ رینٹل کے قصے تمام ہوچکے لکڑ ہضم پتھر ہضم کی طرح مال بھی ہضم ہوچکا۔ڈاکٹر عاصم کی کھربوں کی کرپشنی کہانیاں نیب ،رینجرز اور سرکاری ایجنسیوں نے سُنی اَن سنی کردی ہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی کے دیگر راہنمائوں کے کرپشنی معاملات بھی قصہ پارینہ بن چکے۔

عمران خان صاحب نے کے پی کے کی حکومت کے جو دو وزیر کرپشنوں کی بنیادپر نکالے تھے انھیں بھی لوگ بھول چکے مگر زرداری صاحب کو یہ غلط فہمی دور کرلینی چاہیے کہ جو بڑھکیں وہ یہاں سے بھاگ جانے سے قبل افواج پاکستان کے خلاف لگاتے رہے تھے اس کے اثرات ختم ہوچکے ہیںپاک فوج ہی تو ڈسپلن کی پابند اور اپنے سنئیر جنرلوں کی عزت و آبرو کی محافظ ہے۔زرداری صاحب جس طرح جناب راحیل شریف کو جلسہ عام میں بے نقط سنا کر باہر چل دیے تھے وہ آج تک افواج کے سینئرز ،کور کمانڈرز حتیٰ کہ ایک ایک سپاہی کے دلوں میں زہریلے تیر کی طرح اٹکی ہوئی ہیںاب زرداری سمجھیں کہ اب راحیل شریف تو نہیں رہے اس لیے ان کی طرف سے اپنی زبا ن کے لگائے ہوئے زخم مندمل ہو چکے ہوں گے تو یہ ان کی بھول ہے جو فوج سامراجیوں کے قائد امریکہ کے صدر کی ایک کال پر چاروں شانے چت لیٹنے والے اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے عظیم ہمسایہ ملک افغانستان پر حملہ آور ہونے کا لائسنس ایشو کرنے والے جنرل مشرف کو عدالتوں کی پیشیوں پر آتے ہوئے قافلے کو موڑ کر سرکاری ملٹری ہسپتال میں داخل کرواسکتی ہے اور پھر اسے ملک سے باہہر بھجوا سکتی ہے وہ فوج ان کے اوراپنے شہیدوں کے وارث جنرل راحیل شریف کو جلسہ عام میں تنقید نہیں بلکہ تو ہین آمیز کلمات کہنے پر زرداری کو کیسے معاف کرسکتی ہے۔

اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اب ان کی ساری بہادریاں دلبریاں اور چالاکیاں شریفوں کی شہہ کے بغیر ہوہی نہیں سکتیں کہ ان کی آجکل مجبوری بنی ہوئی ہے اتنی زیادہ کھلی باگیں کسی سیاست دان کی شاید آج تک نہیں ہوسکیں ان کے وزیر اعلیٰ سندھ میں “دلیرانہ”اقدام کی باز گشت سناتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم سوئی گیس کے دفاترپر قبضہ جما کر پنجاب کی گیس بند کردیں گے اور خیبر پختونخواہ میں تو حکومت کے ایم پی اے وغیرہ نے عملاًبجلی کے دفاتر گرڈ اسٹیشنزپر قبضہ کر لیا اور دھرنا دیکر سارا نظام معطل کر ڈالاجہاں جس کا دائو چل رہا ہے اور پولیس ان کی” تابعدار ” ہے وہاں وہ” انقلابی ” بنے ہوئے ہر قسم کی عوام کی “پسندیدہ” واردات کر رہے ہیں۔

زرداری صاحب کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھتے ہوئے اب بھی ناچیز کا یہی مشورہ ہے کہ وہ خود جا کر جناب راحیل شریف (جو کہ اب عالم اسلام کی مشترکہ افواج کی کمان سنبھال چکے ہیں)سے معافی کے طلبگار ہوں وگرنہ ان کی خالی خولی بڑھکیں انھیں اقتدار کی کرسی تو کیا ایسا خواب میں بھی دیکھنا نا ممکن رہے گا۔ویسے بھی بلاول بھٹو نے بے جان پارٹی میں اپنی طلسماتی نوجوان شخصیت کی بنا پر جان ڈالنا شروع کی تھی کہ زرداری صاحب آن ٹپکے اور سارا کام جو کیا گیا تھا وہ پھر سے 0/0ہوگیا۔ ان کے ہوتے ہوئے اہم راہنما فردوس عاشق اعوان گوندل وغیرہ پارٹی سے نکل کر تحریک انصاف میں عوام سے ” انصاف” کرنے کے لیے جا پہنچے ہیں آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا مزید راہنما چھلانگیں لگانے کو تیار بیٹھے ہیں کہ ڈوبتے جہاز سے تو چو ہے بھی دم دبا کر بھاگ نکلتے ہیں یہ تو پھر بھی مصلحت پسند سیاسی بندے ہیں اب پارٹی کا تمت بالخیر ہونے چلا ہے۔

پارٹی کے اہم راہنمائوں کو یقین ہو چکا ہے کہ زرداری صاحب کے ” من پسند رویے” سے اب اس پارٹی کی سیاسی موت واقع ہو کر رہے گی۔پی پی پی میں کھینچا تانی معاملات میں خوامخواہ کی مداخلتیں اس کا تیا پانچہ کر رہی ہیں جو کہ قدرتی امر ہے ان کا یہی کمال بہت ہے کہ پانچ سال تک اپنی صدارتی مدت پوری کی وہ بھی اسطرح کہ ہر بولنے والی آواز کو سیم وزر سے تول کر رکھتے تھے اور ہر حکمران کے ذاتی دوست جناب فضل ارحمٰن وغیرہ سے بھی مناسب حصہ بانٹتے اور لین دین کرتے تھے۔کہ اس طرح وہ کامیاب رہے حتیٰ کہ کمپرومائز والی سیاسی سیڑھی پر چڑھے وہ اپنا سارا کمایا ہوا اور بیرون ملک ڈمپ شدہ سرمایہ بھی بچانے اور مکمل ہضم کرنے میں کامیاب رہے ہیں یوں سمجھیں کہ پارٹی بالکل ختم مگر مال مکمل ہضم وما علینا الاالبلاغ۔

Dr  Ihsan Bari

Dr Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری