قائداعظم محمد علی جناح کی فکری وارث فاطمہ جناح

Fatima Jinnah and Mohammad Ali Jinnah

Fatima Jinnah and Mohammad Ali Jinnah

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
محترمہ فاطمہ جناح 9 جولائی 1967 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں ۔اس طرح اس طرح ان کا 9 جولائی 2015 کو 48واں یوم وفات ہے ۔قوم نے آپ کو مادر ملت اور خاتون پاکستان کے خطاب سے نوازا آپ قائد اعظم کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بہن تھیں۔ دیگر بہن بھائی، احمد علی جناح، بندے علی جناح، رحمت علی جناح، مریم علی جناح، شیریں علی جناح، آپ کا پیدائشی نام فاطمہ علی جناح تھا۔

آپ کی پیدائش کے موقع پر قائد اعظم لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جس وقت فاطمہ جناح کی عمر دو سال ہوئی تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔17 اپریل 1902 کو آپ کے والد کا بھی انتقال ہو گیا تو آپ کے بڑے بھائی محمد علی جناح نے گھر کی تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم کو اچھا نہ سمجھا جاتا تھا مگر آپ کے بھائی نے آپ کو سکول میں داخل کروا دیا جہاں سے آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا پھر 1913 میں سینئر کیمرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1919 میں کلکتہ میں ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج میں داخلہ لیا اور 1922 میں ڈگری حاصل کی اور ممبئی میں پریکٹس شروع کر دی۔

، قائد اعظم کی عمر اس وقت 36برس کی تھی جب آپ کی بیوی رتی جناح انتقال کر گئی 20 فروری 1929 کو فاطمہ جناح اپنا کلینک چھوڑ کر قائد اعظم کے گھر میں منتقل ہو گئیں اس کے بعد آپ کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے آپ کا اور آپ کی بیٹی دینا جناح کا ہر طرح سے خیال رکھا محترمہ فاطمہ جناح وہ عہد ساز شخصیت جنہوں نے پہلی مرتبہ بیسویں صدی کی خواتین کے لئے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔
فاطمہ جناح قوم کے لئے بحیثیت ماں جن کا وجود کبھی متنازع نہ ہوا وہ مادر ملت تھیں ، ان کے قوم پر اس قدراحسانات ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا، بظاہر ایک کمزور سی خاموش طبع خاتون مگر بہادر ایسی کے بر صغیر کے عظیم لیڈر محمد علی جناح کے تمام حوصلے اور سیاسی طاقت ان ہی کی مرہون منت تھی اور دور اندیش ایسی کہ قائد اعظم نے خود اعتراف کیا کہ میں کوئی بھی سیاسی حتمی فیصلہ اپنی بہن فاطمہ جناح کے مشورے کے بغیر نہیں کرتا کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ “ہر کامیاب اور عظیم شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے “اور اس معقولے کو فاطمہ جناح نے ازلی زندگی بخشی، محترمہ نے آخری دنوں تک قائد اعظم کا ساتھ دیا، قائد اعظم نے خود فرمایافاطمہ جناح میرے لئے حوصلے کا ذریعہ ہے، ان دنوں جب مجھے خدشہ تھا کہ برطانیہ حکومت مجھے قید کر لے گی تو فاطمہ نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔

Fatima Jinnah and Mohammad Ali Jinnah

Fatima Jinnah and Mohammad Ali Jinnah

جب تک پاکستان رہے گا قائد اعظم کا نام رہے گا،تو فاطمہ جناح کا نام بھی لیا جاتا رہے گا ۔ اگر ہم فاطمہ جناح کی حیات کی خوبیاں اور ان کی ذاتی خصوصیات کو شمار کرنا چاہیں تو اس کے لئے ہمیں قائد کی زندگی کو دیکھنا ہو گا، یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی عظیم کام کے لئے انتھک محنت ، کوشش اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تمام چیزیں اسی وقت میسر آتی ہیں جب انسان اپنے اردگرد کے ماحول میں پرسکون یکسوئی سے رہ رہا ہو ، چھوٹی چھوٹی پریشانیاں اور بڑے بڑے مسائل اس کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے تو پھر ایسا تب ہی ہوتا ہے۔

جب ان سب چیزوں کو سنبھالنے والا کوئی ہو، اگر ہم قائد اعظم کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں توان کی سیاسی زندگی انتہائی مصروف اور اہم موڑ پر تھی تو فاطمہ جناح ان کے لئے ایک عظیم سہارا بن سامنے آجاتی ہیںاور قائد اعظم کے تمام بوجھ کو اپنے ناتواں کندھے پر اٹھا لیتی ہیں، صرف یہ ہی نہیں ان کی دیکھ بھال ایک ماں کی طرح کرتی ہیں ان کے مسائل کو گہری اور دور اندیشی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے انہیں مفید مشورے دیتی ہیں ، ان کے وقت اور مصروفیات کا بہترین شیڈول بناتی ہیں اور جہاں کہیں قائد اعظم پریشان نظر آتے ہیں تو فاطمہ جناح آپ کے شانہ بشانہ آکھڑی ہوتی ہیں اور پھر تمام مسائل مشکلات و تکالیف ایسے حل ہوتی ہیں جس طرح کبھی تھیں ہی نہیں۔

محترمہ فاطمہ جناح نے شبانہ روز قائداعظم کی خدمت کی یہ خدمت در حقیقت ایک بھائی کی خدمت نہ تھی بلکہ ایک عظیم قومی راہنما کی خدمت تھی، وہ یہ جانتی تھیں کہ اگر قائد اعظم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کامیابی اصل میں قوم کی ہے امت مسلمہ کی ہے، قائد اعظم اگر برصغیر کے عظیم راہنما تھے تو محترمہ فاطمہ جناح عظیم خاتون راہنما تھیں، جن میں شخصی خوبیاں تو کوٹ کوٹ کر بھری تھیں مگر سادہ ایسی کہ کبھی غرور و تکبر ، دکھاوا اور احساس برتری کی جھلک تک ان کی زندگی میں نظر نہیں آتی، اسی خدمت نے قائد اعظم کو ایک غیر مرئی طاقت بخشی اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان جیسی عظیم مملکت کا معجزہ ان دونوں بہن بھائیوں کے سر باندھا، محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کی زندگی میں نہایت اہم اور نمایاں کردار ادا کیا، قائد اعظم کے بعد اگر کسی ایسی شخصیت کا ذکر مقصود ہو جس کی عدم موجودگی میں پاکستان کا قیام ناممکن ہو تو پھر فاطمہ جناح کا ہی نام آئے گا، فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے ساتھ اپنی طویل رفاقت میں برادرانہ محبت ، خلوص، نگرانی، تیمارداری اور مشاورت کا حق ادا کیا۔

Fatima Jinnah

Fatima Jinnah

آپ کا بھائی کے ساتھ یہ تعلق قائد اعظم کی وفات 11 ستمبر 1948 تک جاری رہا ۔محترمہ فاطمہ جناح نے سیاسی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی و فلاحی کاموں کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔آپ کی کوششوں سے کراچی میں آپ کے نام خاتون پاکستان سکول کی بنیاد رکھی گئی جو 1963 میں کالج بن گیا۔محترمہ فاطمہ جناح اردو زبان کو پاکستان کی سرکاری،عدالتی،عوامی زبان بنانے کی خواہاں تھی وہ اپنی اکثر تقاریر میں قوم سے اردو لکھنے ،بولنے،پڑھنے پر زور دیتی تھیں ۔اپنی طویل جہدوجہد پاکستان کے لیے سب کچھ قربان کر دینے والی فاطمہ جناح 9 جولائی 1967 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں آپ کا مزار قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں ہے۔

اب رہیں چین سے دنیا میں زمانے والے
سوگئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
مر کے بھی مرتے نہیں مادر ملت کی طرح شمع تاریک فضائوں میں جلانے والے

محترمہ فاطمہ جناح ،قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی فکری وارث بھی تھیں ۔قائد اعظم کی زندگی میں مادر ملت ان کے ہمراہ موثر طور پر 19 سال رہیں ۔یعنی 1929 سے1948 تک اور وفات قائد کے بعد بھی وہ اتنا عرصہ بقید حیات رہیں ۔مادر ملت نے پاکستان کے بارے میں جن خطرات کی بار بار نشاندہی کی ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت ،بیرونی قرضوں کے ناقابل برداشت دبائو،غربت اور معاشی ناہمواریوں کے خطرناک اضافے ،ناخواندگی اور سائنٹفک تعلیم کے بارے میں حکومت کی مجرمانہ خاموشی ،نصابات میں اسلامی اقدار اور خاص کر قرآنی تعلیمات کا فقدان ،خارجہ پالیسی کے یک طرفہ اور غیر متوازن رویے۔ان سب خدشات کا اظہار محترمہ 1965 میں اپنی تقاریر میں کرتی رہیں ہیں۔

آج ان کی کہی سب باتیں سچ ثابت ہو چکی ہیں ۔محترمہ کی کتاب “مائی برادر” قابل مطالعہ ہے لیکن اس میں سے دو پیراگراف حزف کر دیئے گئے۔ادارے کا نام قائد اعظم اکیڈمی ،ڈائریکٹر جناب شریف المجاہد ،نے محترمہ کی کتاب سے دو پیراگراف حذف کر کے ان کی کتاب شائع کی ۔یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں تھا کہ کسی مصنف (اور وہ بھی مرحوم مصنف)کی تحریر کو اپنی مرضی کے تحت سنسر کیاجائے ۔بظاہر ان کی کتاب سے یہ پیراگراف حذف کر دیے گئے لیکن جناب قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں یہ دونوں پیراگراف شامل کیے۔

Akhtar Sardar Chaudhry

Akhtar Sardar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال