المخلوقات

Donkey Cart

Donkey Cart

تحریر: محمد شعیب تنولی
ابھی ابھی ایک چھوٹی سی ہاؤسنگ سوسائٹی کا وزٹ کرنے کا اتفاق ہوا۔ سوسائٹی کی سٹریٹس 30 فٹ چوڑی تھیں جن پر ایک وقت میں ایک ہی گاڑی گزر سکتی تھی۔ جب میں واپس آرہا تھا تو میرے آگے ایک ریڑھے والا جارہا تھا جس نے کافی سارا سریا لاد رکھا تھا جو ریڑھے کی دونوں اطراف سے باہر نکلا ہوا تھا۔ ایک تو سڑک چھوٹی، دوسرا سریا، میں اس ریڑھے کو اوورٹیک نہ کرسکا اور مجبوراً کچھوے کی رفتار سے اس کے پیچھے گاڑی چلاتا رہا۔

ریڑھے کے آگے گھوڑھا جتا تھا جو شاید بھوکا لگ رہا تھا۔ سڑک کے اطراف لوگوں کے گھروں کے باہر بنے لانز میں درخت اور پودے لگے تھے جن پر وہ گھوڑا بار بار منہ مارنے کی کوشش کرتا لیکن اس کا مالک صرف ہُش کی آواز لگاتا تو وہ گھوڑا سیدھا چلنا شروع کردیتا۔

تقریباً ایک کلومیٹر کا یہ سفربہت دلچسپ گزرا۔ کئی دفعہ گھوڑا اپنے دائیں یا بائیں طرف درختوں کو منہ مارنے کیلئے اپنی ڈائریکشن زرا سی بھی بدلنے کی کوشش کرتا تو اپنے مالک کی آواز سے ارادہ بدل دیتا۔

Donkey Cart

Donkey Cart

مجھے اس وقت اپنا آپ اس بے زبان گھوڑے سے بھی کمتر محسوس ہوا کیونکہ مجھے اللہ کی مہربانی سے سب کچھ حاصل ھے، پیٹ بھی بھرا ہوا ھے لیکن پھر بھی اللہ کی مرضی کے برخلاف اِدھر اُدھر منہ مارتا رہتا ہوں اور باوجود اس کے کہ اللہ کے احکامات کا مجھے پتہ ھے اور کئی ذرائع سے وہ ہر روز سنتا بھی رہتا ہوں، میں منہ مارنے سے باز نہیں آتا۔

مجھے اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہنے کا حق نہیں۔ مجھ سے زیادہ
اپنے مالک کا وفادار اور فرمانبردار تو ایک بےزبان گھوڑا نکلا ۔ ۔ ۔ ۔

تحریر: محمد شعیب تنولی