میری ماں بولی

Mother

Mother

تحریر: نادیہ خان بلوچ
21 فروری کا دن ماں بولی دن کے طور پر منایا جاتا ہے. جسکا مقصد اپنی مادری زبان سے اپنے پیار کا اظہار کرنا، اسکو فروغ دینا اور اسکو اجاگر کرنا ہوتا ہے. ماں بولی ایک ایسا تحفہ ہے جو ہمیں اپنے ورثے سے ملتا ہے. ہماری ماں سے. اپنے گھر سے. ماں بولی ایسی بولی ہے جو ہمارے گھر میں بولی جاتی ہے. اسے سمجھنے اسے بولنے کیلیے ہمیں کسی سکول مدرسے یا سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی. ہمارے کانوں میں جو پہلی آواز پڑتی ہے وہ ہماری ماں بولی میں ہی ہوتی ہے. اس زبان کی ہماری لائف میں بہت اہمیت بن جاتی ہے. اس سے پیار ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے. یہی ہماری پہچان کہلاتی ہے. ماں بولی ایک بچے کی سوچ اسکے انداز پر بھی بہت بڑا اثر ڈالتی ہے. پاکستان میں سرکاری زبان تو صرف ایک ہے. یعنی کہ اردو. مگر اردو کے علاوہ اور بھی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں. جس میں سندھی،پنجابی،پشتو،بلوچی،رنگڑی،راجپوتی،ہندکو اور سرائیکی شامل ہیں. پنجاب کا ایک خاص حصہ سرائیکی زبان بولنے والوں پہ مشتمل ہے. جو کہ جنوبی پنجاب کہلاتا ہے. چونکہ میرا تعلق بھی وہیں سے ہے تو میں بھی ایک سرائیکی ہی ہوں. اور مجھے اس پہ بہت زیادہ فخر بھی ہے.

سرائیکی بہت ہی میٹھی زبان ہے. میری نظر میں اس جیسی پیاری اور میٹھی زبان پوری دنیا میں کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی. بہاولپور،ملتان،مظفرگڑھ،رحیم یار خان،میانوالی،ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان،لیہ،بھکر،لودھراں،علی پور،کوٹ ادو اور راجن پور ایسے علاقے ہیں جہاں بہت بڑی تعداد میں سرائیکی بولی بولنے والے لوگ بستے ہیں. نہ صرف پاکستان میں جنوبی پنجاب بلکہ دنیا کے اور بھی کئی ممالک میں سرائیکی بولنے والے پائے جاتے ہیں. بھارت کا بھی ایک خاص حصہ سرائیکی بولنے والوں پر مشتمل ہے. یہ ایک انٹرنیشنل زبان کی حثیت رکھتی ہے. سرائیکی زبان دنیا کی ایک پرانی زبان ہے. یہ انڈو آرائی خاندان سے تعلق رکھتی ہے. لیکن اسکی بنیادوں میں قدیم افریقی زبان کے ساتھ منڈرائی اور داراوڑ زبانوں کے بھی اثرات ہیں. اس زبان میں خصوصی طورپر چار درآمدی آوازیں ہیں جو سندھی کے علاوہ کسی دوسری ہندآریائی زبان میں نہیں ملتیں. سرائیکی علاقائی زبان کے طورپر طویل عرصے سے موجود تھی لیکن پاکستان میں اسے علیحدہ لسان کے طورپر 1988ئ کی مردم شماری میں تسلیم کیا گیا. 1818ئ میں ملتان پر رنجیت سنگھ کے قبضے تک ریاست ملتان ایک خود مختار ریاست کے طورپر اپنی ایک الگ شناخت رکھتی تھی. اور ملتان خطے کا ایک اہم علمی اور تہذیبی مرکز سمجھا جاتا تھا.

Saraiki culture

Saraiki culture

سرائیکی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے. اسی تہذیب کو ہی وادی سندھ کی تہذیب کہا جاتا ہے. سرائیکی زبان کا اثر اس خطے کی عام زبانوں پر بھی موجود ہے. سندھ دریا اور اس کے معاون دریاؤں پر مشتمل یہ خطہ ہمیشہ ہی تہذیب و تمدن کا مرکز رہا ہے.جہاں آپکو یہاں پر ہڑپہ جیسے شہروں کے کھنڈرات ملتے ہیں وہیں پر آپکو ملتان جیسا زندہ شہر بھی ملتا ہے. جو بائبل اور نینیوا یا مصر کی تہذیب سے بھی پرانا شہر ہے. جو آج بھی زندہ ہے. اتنی ہی سرائیکی زبان پرانی ہے. سرائیکی زبان تہذیب 1818ئ میں سکھ کے قبضے اور بعد میں انگریز کی سول انجیرنگ بہت برا اثر ڈالا ہے. آج ہماری تہذیب کو ہماری ماں بولی کو ختم کیا جارہا ہے. سرائیکی زبان اور ثقافت کو پنجابی کا حصہ قرار دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں ساتھ ساتھ سرائیکی قوم کو بدترین آباد کاری کا سامنا ہے. کہیں ہمیں جنگلی کہا جارہا ہے تو کہیں فرسودہ خیالات کی مالک قوم. سرائیکیوں کی پہچان اب بس پنجاب سے تعلق رکھنے کی بنا پر پنجابی کی ہی رہ گئی ہے. سرائیکی قوم کے حق مارے جارہے ہیں. وزیر اعلی پنجاب یا پھر ہماری کسی بھی حکومت نے سرائیکیوں کو انسان سمجھا ہی نہیں. نہ انکے مسائل کو کبھی ایوانوں میں پیش کیا. ادب کا شعبہ ہو یا پھر کوئی اور شعبہ کسی نے سرائیکیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی.

ہماری ماں بولی کو اپنے لفظوں کا لباس پہنانے والا سرائیکی شاعری کا مان شاکر آج فالج کے مرض میں مبتلا ہے کسی نے بھی کبھی جا کے اس کا حال نہ پوچھا. پٹھانے خان ہمارے سرائیکی خطے کی شان جس نے اپنے کلام سے سرائیکی کو انٹرنیشنل سطح پہ اجاگر کیا آج اسکے گھر والوں کو کوئی پوچھتا نہیں. ہمارا لالہ عطا اللہ خان عیسی خیلوی سب کے دلوں کی دھڑکن سرائیکی خطے کا ہمیشہ چمکنے والا ستارہ ان کی بھی کچھ خاص حوصلہ افزائی نہیں کی. سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جنکا تعلق ملتان سے ہے انہوں نے بھی سرائیکی کیلیے آوازنہ اٹھائی. سرائیکیوں کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے. گزشتہ برس میٹرک کے مضامین میں سرائیکی کا کورس اختیاری مضمون کے طورپر شامل کرنے کیلیے منظوری تو مل گئی مگر اس پہ جانے کب تک عمل ہو. بقول کسی کے شہباز شریف کو صرف وہی کام اچھے لگتے ہیں جسکا پیسہ چین سے آرہا ہو.

اس لیے 21 فروری کو ماں بولی کیلیے جلسے جلوس نکالنے والوں کو چاہیے 2،3 بینر چینی زبان میں بھی بنوا لیں. اور ایک چکر چینی سفارت خانے کا بھی لگا لیں شاید انہیں کچھ خیال آجائے. سرائیکیوںکو الگ صوبہ نہ سہی انکے کچھ جائز حق ہی دے دیں. سویزر لائنڈ جیسے ترقی یافتہ ملک میں جب 4 سرکاری زبانیں ہوسکتی ہیں تو پاکستان میں کیوں علاقائی زبان کو اہمیت دے کر انکا الگ صوبے کا مطالبہ نہیں مانا جاتا؟ کوئی ناراض ہو یا پھر ہم پہ تنقید کرے میں تو اعلانیا کہتی ہوں میں سرائیکی ہوں اور سرائیکستان کی حمایتی ہوں. ہمیں پنجابی نہ کہا جائے. سرائیکی میری ماں بولی ہے. مشرقی پاکستان اگر زبان کی بنا پہ الگ ملک حاصل کرسکتا ہے. تو اسی بنا پہ الگ صوبہ ہمارا حق ہے. سرائیکی میری پہچان ہے۔

Nadia Baloch

Nadia Baloch

تحریر: نادیہ خان بلوچ