لمحہ موجود

ہم مسافر ہیں
ایسی انجان گزرگاہوں کے
جِن پہ چلتے ہوئے وحشت کا گماں ہوتا ہے
دم اکھڑتا ہے تو مرنے کا سماں ہوتا ہے

آبلہ پا ہیں مگر لمحہء آرام نہیں
اپنی قسمت میں کوئی بھی تو دروبام نہیں
ہم کو چلنا ہے یونہی وقت کی رفتار کے سنگ
کیونکہ اجداد کی میراث ہے یہ دربدری

خاک کا رِزق ہوئے وہ بھی اِنہی راہوں میں
اور اپنے بھی نصیبوں میں ہے انجام یہی
پر ہمیں چلنا ہے اِس کار گہِ ہستی میں
پا بہ زنجیر سہی،باعثِ تعزیر سہی

اپنی آنکھوں میں وہی درد کی تصویر سہی
ہونٹ پابند سہی، جِسم پہ پیوند سہی
لیکن اِس جَبر کی میراث کو کردیں گے دفن
آخری بار کوئی اوڑھے گا اِن راہوں میں کفن

جَبر کو، ظلم کواَب ہم نہ پنپنے دیں گے
جِسم مِٹتے ہیں تو مِٹ جائیں مگر سوچوں پہ
اَب کِسی شخص کو پہرے نہ بِٹھانے دیں گے

Sahil Munir

Sahil Munir

تحریر : ساحل منیر