ماہ شوال اور غزوہ احد

Ghazwa Uhad

Ghazwa Uhad

تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری
اسلامی سال کادسواں مہینہ شوال ہے جسکی یکم تاریخ کو مسلمان عید الفطر مناتے ہیں ماہ شوال میں غزوہ احد کا واقعہ پیش آیا قارئین کرام غزوہ احد کے بارے میں جو کچھ تحریر کر رہا ہوں یہ تاریخی حوالوں سے ہے مدینہ منورہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر واقع تمام پہاڑوں سے منفرد پہاڑ ہے جسے احد کا پہاڑ کہا جاتا ہے 7شوال3ہجری کومسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان احد کے پہاڑوں کے دامن میں ایک جنگ ہوئی جسے غزوہ احد کہا جاتا ہے غزوہ احد میں مسلمان لشکر کی قیادت حضور ۖ جبکہ مشرکین مکہ کے لشکر کی قیادت ابو سفیان نے کی ابو سفیان کے لشکر کی تعداد 3000سے زائد اور مسلمان لشکر کی تعداد 1000تھی ابو سفیان کے لشکر نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے ایک سال تک تیاری کی کیونکہ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور تجارتی علاقوں پر قابض بھی ہونا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی غزوہ بدر کے بعد مسلمانوں نے کر دی تھی ابو جہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا اسی لیے قریش کی سرداری ابو سفیان کے پاس آئی اگر غزوہ احد پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے گھر مشاعرہ کی محفلیں سجانا شروع کیں اور اشعار کے ذریعے جنگ کی ترغیب دی ابو سفیان کی بیوی ہندہ کے ساتھ ایک اور ایک ہندو شخص کعب الاشرف کا نام بھی جنگ کی ترغیب دینے والوں میں شامل ہے۔

ابو سفیان جو کہ قریش کا سردار بھی تھا اس نے لوگوں کو جنگ کا بندوبست کرنے کا حکم دیا اور ساز و سامان تیار کرنے کا کہا ابو سفیان نے 3000جنگجو سپاہیوں کا لشکر تیار کیا جن کے پاس 200گھوڑے 300اونٹ بھی تھے ابو سفیان نے اس جنگ میں خاص طور پرخواتین کو بھی ساتھ رکھا جو جنگی اشعار پڑھ پڑھ کر لشکر کا حوصلہ بڑھاتیںجب حضور ۖ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ ۖ نے بھی جنگی ساز وسامان اکھٹا کرنے کا حکم دیا اور مشرکین مکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا لہٰذا 5شوال 3ہجری کو دونوں فوجیں کی تیاری مکمل ہوچکی تھی کیونکہ احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا حضور ۖ نے حضرت عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیر انداز وہاں مقرر کر دیے تاکہ دشمن اس راستے سے میدان جنگ میں نہ آسکے حضور ۖ نے مہاجرین سے مشورہ کیا کہ جنگ شہر میں رہ کر لڑی جائے یا باہر نکل کر ،فیصلہ یہ ہوا کہ جنگ باہر نکل کر لڑی جائے گی 6شوال 3ہجری کو نماز جمعہ کے بعد حضور ۖ نے 1000لشکر کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے کیونکہ کچھ لوگ ابو سفیان کی منافقت میں آچکے تھے ان میں سے ایک منافق عبداللہ بن ابی بھی تھا اس نے یہ بہانہ بنایا کہ شہر میں رہ کر جنگ لڑنے کے فیصلے کومسترد کیا گیا ہے۔

لہٰذا ہم الگ ہوتے ہیں وہ اپنے 300ساتھیوں کے ساتھ جنگ سے علیحدہ ہوگیا حضرت علی کو اسی جنگ میں ایک تلوار ملی جسے “ذوالفقار” کہا جاتا ہے غزوہ احد میں حضور ۖ کے دانت مبارک بھی شہید ہوئے تھے 7شوال کو دونوں فوجیں احد کے میدا ن میں آمنے سامنے آگئیں جنگ کا آغاز ابو عار جو کہ مشرکین کا رہنما تھا اس کی تیر اندازی سے ہوا پہلے مرحلے میں مشرکین کی طرف سے نو افراد حملہ آور ہوئے جو تمام قتل ہوئے حضور ۖ نے پچاس تیر اندازوں کو حضرت عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں ایک درہ پر تعینات کیا تاکہ مشرکین یہاں سے داخل نہ ہو سکیں مشرکین مکہ جنگ بدر کی شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے اس لیے وہ ہر قیمت پر جنگ جیتنا چاہتے تھے پہلے حملے کے نتیجے میں مشرکین مکہ کے نو افراد ہلاک ہونے کے بعد مشرکین مکہ نے اکھٹے حملہ کیا اس دوران خواتین جنگی اشعار پڑھ کر مزید اشتعال دلواتی رہیں۔

ابتدا کی جنگ میں مسلمانوں نے بھرپور مقابلہ کیا بہت سے مشرکین مکہ قتل بھی ہوئے حتیٰ کہ مشرکین مکہ فرار ہونے لگے مسلمانوں نے سوچاکہ ہم جنگ جیت گئے ہیں انہوں نے حضور ۖ کی باتوں کو فراموش کر دیا کہ کسی صورت بھی درہ کو خالی نہیں چھوڑنا لیکن مسلمانوں نے مال غنیمت اکھٹا کرنا شروع کر دیا خالد بن ولید جو اُس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے یہ سب حال دیکھتے ہوئے درہ کے گرد چکر لگایا اور قبضہ کر لیا اسی اثنا میں یکدم پیچھے سے وار بھی کر دیا جب مسلمانوں پر وار ہوا تو کسی نے افواہ پھلا دی کہ حضور ۖ شہید ہو گئے ہیں لوگوں نے جیسے ہی سنا تو کچھ جنگ سے یہ کہہ کر علیحدہ ہو گئے کہ اب ہمارا جنگ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہمارا راہنما ہم میں نہیں رہا کچھ لوگ جنگ سے فرار ہو گئے اور کچھ واپس لوٹ آئے لیکن جو لوگ حضور ۖ کے ساتھ تھے انہوں نے آپ ۖ کی بھرپور حفاظت فرمائی آپ ۖ کا دانت مبارک بھی اسی واقع میں شہید ہوا آپ ۖ نے حضرت علی کو جنگ لڑنے کے لیے ایک تلوار عنایت کی جسے”ذوالفقار”کہتے ہیں کفارکی جانب سے اس جنگ کا بنیادی مقصد صرف جنگ بدر کا بدلہ لینا تھا سو ابو سفیان کی بیوی نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر کھا لیا جس کا آپ ۖ کو بے حد دکھ ہوا ہندہ نے دیگر مسلمانوں کے بھی کان اور ناک کاٹے کچھ لوگ اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست کا کہتے ہیں لیکن اگر اس جنگ کا باغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی بلکہ حضور پاک ۖ کی باتوں پر عمل نہ کرنے سے مسلمان اس انجام کو پہنچے اگر وہ درہ کو نہ چھوڑتے اور مال غنیمت اکھٹا کرنے نہ جاتے تو نتائج کچھ اور ہوتے غزوہ احد میں مسلمان شہدا کی تعداد70جبکہ 27مشرکین ہلاک ہوئے مسلمان شہدا کو اسی غزوہ کے مقام پرسپرد خاک کیا گیا۔

اس جنگ میں مسلمانوں کو اپنی شکست سے بہت بڑاسبق بھی ملا کہ ہمیشہ اکھٹے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے تاکہ کفار سے ڈٹ کے مقابلہ کیا جا سکے اور اس کا واضح ثبوت بعد میں ہونے والے غزوات اور جنگوں سے ملتا ہے جس میں مسلمانوں نے کفار کا ڈٹ کے مقابلہ کیا اور فتح سے ہمکنار بھی ہوئے ان غزوات میں غزوہ خندق،غزوہ بنی قریظہ،غزوہ بنی مصطلق،غزوہ خیبر،جنگ موتہ ،غزوہ فتح مکہ،غزوہ حنین اور غزوہ تبوک قابل ذکر ہیں ان تمام غزوات میں مسلمانوں نے فتح حاصل کی جنگ موتہ کو غزوہ اس لیے نہیں کہتے کیونکہ اس میں حضور ۖ خود شامل نہیں ہوئے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے کہ “حزن و ملال نہ کرو کیونک بلاآخر مومنین ہی غالب آئیں گے”آخر میں یہی دعا کہ اللہ تمام مسلمانوں کو حضور ۖ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری
03336963372