6 ماہ کی تنخواہ سے محروم ایچ ایم سی ٹیکسلا کے مزدوروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا

Protest

Protest

ٹیکسلا (ڈاکٹر سید صابر علی سے) 6 ماہ کی تنخواہ سے محروم ایچ ایم سی ٹیکسلا کے مزدوروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، گھرانے کے افراد سمیت خود کشی کی دھمکیاں، فاقہ کشی تو کر لی اب خود کشی کی نوبت آ چکی ہے، ہم اپنی فریاد لیکر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پاس بھی گئے مگرمایوسی کے سواکچھ حاصل نہ ہوا، اگر ہمیں فی الفورتنخواہیں ادانہ کی گئیں توکسی بھی راست اقدام سے گریزنہیں کریں گے جس کی تمام ترذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہو گی۔

ان خیا لا ت کااظہارہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلاکی ایمپلائز لیبریونین (سی بی اے)ایسوسی ایٹ انجینئرزایسوسی ایشن ،انجینئرزایسوسی ایشن اور آفیسرزایسوسی ایشن کے عہدیداروں راجہ جاویداقبال،غلام مرتضیٰ شاہ ،عطاء اللہ شاہ، عبدالرئوف،ممتازاحمد،انجینئرمحمدفاروق،منظور احمد بلوچ، ارشد محموداورملک محمدانورنے گذشتہ روزایچ ایم سی میں مشترکہ ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ 6ماہ کی تنخواہ نہ ملنے کے باوجودہم نے ادارے کوبندنہیں کیااورنہ ہی کوئی احتجاج کیاجبکہ اپنی طرف سے بھرپورکوشش کی کہ ایچ ایم سی کے کسٹمرزکاکام بروقت مکمل ہوجس میں ہم نے بھرپورکامیابی بھی حاصل کی ۔ہمارے کسٹمرز اثرورسوخ رکھنے والے ہیں لہٰذاہم ان سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہم آوازہوکرحکومت پردبائوڈالیں تاکہ ایچ ایم سی جیساعظیم قومی ادارہ تباہی سے بچ سکے ۔انہوں نے بتایا کہ ایچ ایم سی ملکی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک جن میں انڈونیشیا،بنگلہ دیش اورعراق شامل ہیں وہاں شوگر پلانٹ اورسیمنٹ پلانٹس لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔

جبکہ ایچ ایم سی کی کوکھ سے پاکستان میں شوگرملز،سیمنٹ پلانٹس،آئل ریفائنری ، روڈ کنسٹرکشن مشینری،روڈرولرز،موبائل اوراوورہیڈکرینز،بوائلرزاوراس کے علاوہ دفاعی اداروں کے کئی اہم پراجیکٹس بھی پا ئے تکمیل تک پہنچائے جس سے قومی خزانے کواربوں روپے ٹیکس کی مدمیں وصول ہوئے ۔لیکن آجکل یہ قومی ادارہ زبوں حالی کاشکارہے جبکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قومی اثاثے کی تباہی کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کوتیارنہیں ۔ گذشتہ 6ماہ سے ملازمین کوتنخواہیں نہیں ملیں حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اس ادارے کی بحالی اوریہاں کام کرنے والے محنت کشوں کی تنخواہوں کے لئے وزارت پیداوارکوئی قدم نہیں اٹھا رہی ۔مزدوررہنمائوں نے بتایاکہ ایچ ایم سی پرجب اچھے دن تھے تواس وقت وزارت پیداواراس کی مالک کہلاتی تھی اور مراعات بھی حاصل کیں گئیں۔

جبکہ آج جب اس قومی ادارے پرمشکل وقت آیاتوملازمین کو بیل آئوٹ پیکج کے تحت تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے قرض رقم بھی نہیں دے رہے ۔یہاں کام کرنے والے ملازمین کی اب حالت یہ ہے کہ نئے تعلیمی سال کے آغازپرملازمین نے زیورات اور گھر یلو ضروریات کادیگرسامان فروخت کرکے بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کیں اوراب تونوبت فاقہ کسی سے بڑھ کر خود کشی تک پہنچ چکی ہے ہم نے اب تک صبرکادامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن اب حالت ”تنگ آمد بجنگ آمد”والی ہو گئی ہے ۔ہم آج میڈیاکی وساطت سے وزیراعظم پاکستان،متعلقہ وزراء ،اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پیداوار(قومی اسمبلی وسینیٹ)سے پرزوراپیل کرتے ہیں خداراایک نظرایچ ایم سی پربھی ڈالیں اگرپھربھی ہماری فریادکسی نے نہ سُنی توہم دوہزارخاندانوں کے ہمراہ اسلام آبادجائیں گے اورٹیکسلامیں بھُوکامرنے کی بجائے اسلام آبادمیں مرنے کوترجیح دیں گے۔

ڈاکٹر سید صابر علی ٹیکسلاموبائل نمبر0300-5128038