مون بھائی، ڈی پی او مستنصر فیروز

DPO Mustansir Feroz

DPO Mustansir Feroz

​تحریر : عمران فیروز ملک
دیانتداری ، ایمانداری فرض شناسی اور وطن پرستی کو اگر انسانی شکل میں ڈھالا جائے تو شائد جو صورت بنے وہ ھو بہو مون بھائی جیسی ھو گی۔ دس سال کی عمر میں والد کے انتقال ، گھر کی ذمہ راریوں نے شائد بھائی کو وقت سے پہلے بڑا کر دیا، بھائی بچپن سے ہی سخت مزاج اور غصے کے تیز رہے غلط بات کسی صورت برداشت نہ کرنے کی عادت ان کی سرشت میں شامل ھے، بھائی سے میرا رشتہ اولا” احترام اور ادب اور بعد ازاں شدید محبت کا رہا، بھائی محنت اور ذہانت کا حسین امتزاج ھیں شروع سے اپنی زہانت کا لوہا منواتے آئے اور ھمیشہ اعلی نمبروں سے کامیاب ہو کر ھمارا سر فخر سے بلند کئے رکھا۔ تمام بورڈ امتحانات میں اپنے سکول کا نام بلند کر کے آنر بورڈ پر اپنا نام تحریر کرواتے گئے۔ کم وسائل اور کٹھن حالات کے باوجود اللہ کی رحمت ھمیشہ بھائی کے ساتھ رہی جس کا ثمر ۱۹۹۹ میں بھائی کی فوج میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ تعیناتی کی صورت میں ملا۔ اس سے قبل میرابھائی سے تعلق ان کی غیر نصابی سر گرمیوں سے منسلک تھا ،پنگ اڑاتے وقت میں بطور اسٹنٹ ان کی چرکھڑی (ڈور لپیٹنے والی چیز) میں سمبھالتا تھا اور پتنگ کٹ جانے کی صورت میں امی کے پاس چھپ کےاپنی جان بچاتا تھالیکن کئی بار بھائی کی رفتار خاصی احتیات اور مناسب فاصلے کے باوجود ھم سے تیز ثابت ہوئی اور خاطر خواہ ٹھکائی کا باعث بنی۔

اس کے علاوہ بھائی کی پسندیدہ ایس جی ایم کی برفی لاتے ھوئے راستے میں اس پر ہاتھ صاف کرنے کی وجہ سے کافی گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پر جس پر اس وقت ھمارے خیال میں UN کو نوٹس لینا چاھئے تھا مگر ناجانے کیوں عالمی برادری اس اھم حادثے پر خاموش تماشائی بنی رہی جس کے لئی یقینا” وہ واجب سزا ھیں۔ لیکن اس سب پھنٹی پروگرام کے باوجود بھائی نے کبھی کسی باہر کے بندے کو ھم پر رعب جمانے نہیں دیا اور پھنٹی ھمیشہ اپنے ہاتھ سے لگائی ایک بار ایک حضرت نے قریبی وڈیو گیم کی دوکان میں ھم سے لڑائی کی جو ھم جواں مردی سے روتے روتے گھر آئے اور ٹھیک آدھے گھنٹے میں وہ صاحب بھائی سے کٹ کھا کر اپنی اماں سمیت ھمارے گھر شکائت لگانے موجود تھے۔

۔ ۱۹۹۹ میں بھائی کی فوج میں سلیکشن سے ھمارے سر فخر سے بلند ھو ئے ساتھ ہی ساتھ ٹریننگ اور پھر کویٹہ پوسٹنگ کی وجہ سے ایک انتظار اور محبت کے رشتے نے جنم لیا ، محبت کے رشتے عجیب ھوتے ھیں جہاں دوریاں قربتوں میں اضافہ کیا کرتی ھیں – مون بھائی کا فوج کا کریئر بھی ان کی محنت اور لگن کا عکاس ھے جہاں اکیڈمی میں محنت سے بطور بٹالیں جونئر انڈر آفیسر اور پھر YOs Courseمیں 97.5 % مارکس سے ڈسٹنکشسن لے کر اپنی کور کا نام روشن کیا جو کے آرمی کی ھسٹری میں ایک ریکارڈ ھے۔بھائی کی ساتھ تعلق کا دوسرا دور ان کی سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی اور اسلام آباد میں بطور اے ایس پی تعناتی کی بعد شروع ھوا جب ھم گرتے پڑتے وکیل بن چکے تھے اور بھلوال میں پریکٹس سٹارٹ کر رکھی تھی ۔ بھائی نے ایک دن زبردستی ہاتھ پکڑا اور اسلامآباد لے آئے اورمیری مخالفت اور لڑائی کے باوجود یہاں کے ایک انتہائی نامور وکیل راجہ رضوان عباسی صاحب کے ساتھ بطور جونیئر منسلک کروا دیا وقت نے ثابت کیا کہ ان کا فیصلہ انتہائی درست تھا اس ایک فیصلے نہ میری زندگی کو کامیابی کی راہ پے ڈال دیااور اسی ایک فیصلے نے مجھے اسلام آباد کے اچھے وکیلوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

Mustansar Feroze

Mustansar Feroze

بھائی کے ساتھ گزارے ان چند سالوں نے بھائی کی ذات کی دیگر پہلوں سے بھی روشناس کروایا اور مجھے لگا کے شائد میں اس شخص کو کبھی نہیں جان سکتا۔ بھائی چھ سال اسلامآباد تعناتی میں کبھی مجھے کوئی کیس ریفر نہیں کیا جس پر مجھے ان سے ھمیش ہی گلا رہا لیکن ان کے جانے کے بعد یہ پتہ چلا کےبے جا سفارش نہ کرنے کی بدولت اسلام آباد پولیس افسران ان کی کتنی عزت کرتی ھیں اوراب ان کے جانے کے بعد بھی میرے ساتھ اسی خلوص سے پیش آتے ھیں کیوں کے انہیں شائد اندازہ ھے کے مستنصر کا بھائی کوئی غلط بندے کا کام نہیں کہ سکتا۔بھائی کا شمار پولیس کے محنتی افسران میں ھوتا ھے جو کے ھمہ وقت لوگوں کی خدمت میں مصروف رھتے ھیں بے جا سفارش ، ظلم ذیارتی کے شدید مخالف ھر کام میرٹ پے کرنے میں مشہور ھیں جس کے باعث کئی دفعہ دوستوں کے سامنے مجھے خفت کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اللہ کے سامنےوہ ضرور سرخرو ھوں گےایک بار ایک دوست کی نوکری کے لئے سفارش کی تو بولے اسے کہو محنت کرے اللہ روزی ضرور دے گا سفارش سے ملنی ھوتی تو آج میری جگہ کوئی سفارشی بیٹھا ھوتا جب اللہ نے میری حق تلفی نہیں کی تو میں اس کی سفارش کر کے کسی دوسرے کا حق کیوں ماروں۔

بھائی ڈیوٹی میں اتنا مصوف ھوتے ھیں کے ایک ہی گھر میں رھتے ھفتوں ان سے ملاقات نہیں ھوتی گھر سے کئی بار میری ڈیوٹی لگائی گئی کے ان سے بات کر کے انہیں آرام اور فیملی کے ساتھ وقت گزاتنے کا مشورہ دوں ایک بار ان سے بات کی تو بولے یار یہ سمجھتے نہیں کے اللہ نے یہ عزت گھر گاڑی اس لئیے نہیں دی کے اس پر بچوں کو سیر کروتا رھوں کل کو حساب دینا ھے تو کس منہ سے اللہ کو بتاوں گا کے جب لوگوں کے گھر لٹ رھے تھے تو میں گھر سو رہا تھا۔ ایک دن ازرہ مذاق ان سے کہا کہ یار آپ اچھے شریف آدمی ھو اتنے عرصے سے میں پولیس میں ھوتا تو میری دو کوٹھیاں ھوتیں آپ آج بھی کرائے کے گھر میں ھو۔ مسکرا کے بولے بس آللہ نے اسی وجہ سے تمھیں اوقات میں رکھا ھوا ھے(بےعزتی جئی نہیں ھو گئی)۔

Budget

Budget

ڈی پی او تعیناتی کے بعد مجھے فخر سے بتایا کے میرے پاس 12 کروڑ کا بجٹ ھوتا ھے جو میں ایک دستخط کر کے کہیں بھی لگا سکتا ،ساتھ ھی لگے ھاتھوں کہا یار اس دفعہ بل زیادہ آگیا ھےمہینے کا آخیر ھے انسانوں کی طرح پیسے نکال دو ورنہ مجھے دوسرے طریقے بھی آتے ھیں ۔ بے پناہ ڈیوٹی کرتےفرض کو خدا کی امانت سمجھتے ، ھر بات پر آللہ کا شکر ادا کرتے۔ عمرہ ویزہ لگنے پر بچوں کی طرح خوش ھوتے اور غلاف و کعبہ سے لپٹ کے پھوٹ پھوٹ روتے مون بھائی کو شائد میں بھی نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ھوں کہ اگر دیانتداری ایمانداری اور فرض شناسی اور وطن پرستی کو انسانی روپ دیا جائے تو اس کی شکل ہو بہو مون بھائی جیسی ھو گی۔

​تحریر : عمران فیروز ملک